Maktaba Wahhabi

510 - 531
﴿ يَمْحَقُ ٱللّٰهُ ٱلرِّ‌بَو‌ٰا۟ وَيُرْ‌بِى ٱلصَّدَقَـٰتِ ﴾ (البقرة 2/276) ’’اللہ سود کو نابود (یعنی بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے۔‘‘ اور فرمایا: ﴿ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ وَذَرُ‌وا۟ مَا بَقِىَ مِنَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰٓا۟ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْ‌بٍ مِّنَ ٱللّٰهِ وَرَ‌سُولِهِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ (البقرة 2/278-279) ’’اے مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا اس کو چھوڑ دو، اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (کہ تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوتے ہو) اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصلی رقم لینے کا حق ہے جس میں نہ اوروں کا نقصان ہو اور نہ تمہارا نقصان۔‘‘ پھر اس کے بعد ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَ‌ةٍ فَنَظِرَ‌ةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَ‌ةٍ ﴾ (البقرۃ 2/280) ’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے تک) مہلت دو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تلقین فرمائی ہے کہ تنگ دست سے قرض کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ یہ جائز ہے کہ مہلت کی وجہ سے اس پر اور مالی بوجھ ڈال دیا جائے بلکہ واجب یہ ہے کہ قرض ادا کرنے سے عاجز و قاصر ہونے کی صورت میں اسے مہلت دی جائے، تا آنکہ وہ آسانی سے قرض ادا کر دے، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت اور لطف و کرم ہے اور انہیں اس ظلم اور بدترین لالچ سے بچانا ہے جو ان کے لیے سراسر نقصان دہ ہے اور ان کے لیے ذرہ بھر فائدہ مند نہیں۔ بینکوں میں سود کے بغیر سرمایا رکھنے میں کوئی حرج نہیں، جبکہ مسلمان اس کے لیے مجبور ہو، البتہ سودی بینکوں میں کام کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، خواہ کوئی مینجر کے طور پر کام کرے یا کلرک کے طور پر یا اکاؤنٹینٹ کے طور پر یا کسی اور طور پر کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَتَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْبِرِّ‌ وَٱلتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا۟ عَلَى ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ ۚ وَٱتَّقُوا۟ ٱللّٰهَ ۖ إِنَّ ٱللّٰهَ شَدِيدُ ٱلْعِقَابِ ﴿٢﴾ (المائده 5/2) ’’اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تم ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے۔‘‘ اور حدیث سے ثابت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور دونوں گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘اور فرمایا: (هُمْ سَوَاءٌ) (صحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب لعن آكل الربا ومؤكله‘ ح: 1598) ’’یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔‘‘ گناہوں پر تعاون کی حرمت پر دلالت کرنے والی آیات اور احادیث بہت سی ہیں، انہی مذکورہ دلائل سے یہ بھی معلوم
Flag Counter