وہ اضافہ جس کے ساتھ معاملہ سودی ہو جاتا ہے اس سے مراد وہ اضافہ ہے جو مدت گزرنے کے بعد قرض دینے والے کو ادا کیا جاتا ہے تاکہ وہ مقروض کو کچھ عرصہ کے لیے مزید مہلت دے دے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ لوگ مقروض سے کہتے کہ یا تو قرض ادا کرو اور یا پھر تمہیں قرض کی اصل رقم سے زیادہ دینا ہو گا، اسلام نے اس سے منع کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے یہ حکم نازل فرمایا:
(وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ) (البقرة 2/280)
’’اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے تک) مہلت دو۔‘‘
علماء کا اجماع ہے کہ اس طرح کا اضافہ اور ہر وہ معاملہ جو اس طرح کے اضافے کو حلال قرار دینے کا وسیلہ بنے، حرام ہے، مثلا اگر کوئی قرض دینے والا مقروض سے یہ کہے کہ یہ چینی یا کوئی اور سامان مجھ سے ادھار خرید لو اور پھر مجھے نقد بیچ کر مجھ سے جو قیمت حاصل کرو اس سے میرا قرض ادا کر دو تو یہ معاملہ ایک کھلم کھلا حیلہ ہے جسے اس سود کو حلال قرار دینے کے لیے اختیار کیا گیا ہے جس کے زمانہ جاہلیت کے لوگ عادی تھے، لیکن طریق کار میں تھوڑی سی تبدیلی کر لی گئی ہے۔ لہذا واجب یہ ہے کہ اسے بالکل ترک کر کے اس سے اجتناب کیا جائے اور تنگ دست مقروض کو مہلت دی جائے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے آسانی پیدا فرما دے، اسی طرح تنگ دست مقروض پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور ایسے جائز اسباب اختیار کرے جن سے وہ اپنے قرض کو ادا کرے اور قرض دینے والوں کے حقوق کو ادا کر سکے۔ اگر وہ سستی کرے، حقوق ادا کرنے کے لیے اسباب و وسائل حاصل کرنے کے لیے محنت نہ کرے تو وہ اہل حق پر ظلم کرنے والا اور خیانت کرنے والا ہو گا اور یہ اس دولت مند کے حکم میں ہو گا جو قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہو اور اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے:
(مَطْلُ الغَنِيِّ ظُلْمٌ) (صحيح البخاري‘ الاستقراض‘ باب مطل الغني ظلم‘ ح: 2400 وصحيح مسلم‘ المساقاة‘ باب تحريم مطل الغني‘ ح: 1064)
’’دولت مند کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔‘‘
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا ہے:
(لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عِرْضَهُ وَعُقُوبَتَهُ) (سنن ابي داود‘ القضاء‘ باب في الدين هل يجس به‘ ح: 3628)
’’جس شخص کے پاس مال موجود ہو اور وہ ٹال مٹول کرے تو اس کی بے عزتی کرنا اور اسے سزا دینا حلال ہے۔‘‘
بینکوں اور بعض تاجروں کا یہ معاملہ بھی سودی ہے جو قرض دے کر زیادہ وصول کرتے ہیں یا تو مطلقا یا ہر سال ایک معلوم شرح کے حساب سے پہلے کی مثال یہ ہے کہ وہ اس شرط پر ایک ہزار قرض دے کہ ( مقروض) اس (ایک ہزار) کے بجائے ایک ہزار ایک سو واپس لوٹائے گا یا اپنے گھر یا دوکان میں جگہ دے گا یا ایک معلوم مدت تک کے لیے اسے اپنی گاڑی یا سواری دے گا۔ اور دوسرے کی مثال یہ ہے کہ وہ قرض پر لی ہوئی رقم کے مقابلہ میں ہر سال یا ہر ماہ معلوم شرح کے حساب سے منافع (سود) ادا کرے گا، خواہ اس نے یہ رقم اسے قرض کے نام سے دے ہو یا امانت کے نام سے، کیونکہ جب
|