Maktaba Wahhabi

275 - 531
غالب یہ ہو کہ ابھی وہ میقات کے برابر نہیں پہنچے کیونکہ احرام میقات سے پہلے بھی جائز مع الکراہت ہے لیکن جب مقصود یہ احتیاط ہو کہ احرام کے بغیر میقات سے تجاوز نہ ہو تو پھر کراہت زائل ہو جائے گی کیونکہ واجب ادا کرنے میں کوئی کراہت نہیں ہے، چنانچہ مذاہب اربعہ کے اہل علم کا یہی قول ہے اور انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ سے استدلال کیا ہے۔ ان کا استدلال امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی اس ارشاد سے بھی ہے کہ جب اہل عراق نے آپ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ہمارا میقات قرن ہمارے راستے سے دور ہٹا ہوا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ راستہ میں یہ دیکھ لو کہ اس کے برابر کون سی جگہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر یہ واجب قرار دیا ہے کہ وہ اس سے جہاں تک ہو سکے ڈریں اور جو شخص اصل میقات کے پاس سے نہ گزرے تو مقدور بھر اس کی استطاعت میں یہی ہے کہ وہ اس جگہ سے احرام باندھے لے جو میقات کے برابر ہو، لہذا فضائی یا بحری راستے سے حج اور عمرہ کے لیے آنے والوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ احرام کو جدہ تک مؤخر کریں کیونکہ جدہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ میقات نہیں ہے۔ اسی طرح جس شخص کے پاس احرام کی چادریں نہ ہوں تو اس کے لیے بھی جدہ تک احرام کو مؤخر کرنا جائز نہیں بلکہ اس کے لیے بھی واجب یہ ہے کہ وہ شلوار ہی میں احرام باندھ لے کیونکہ صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ , وَمَنْ لَمْ يَجِدْ إِزَارًا فَلْيَلْبَسْ سَرَاوِيلَ) (صحيح البخاري‘ جزاء الصيد‘ باب لبس الخفين...الخ‘ ح: 1841 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحرم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1179) ’’جس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے، جن کے پاس چادر نہ ہو تو وہ شلوار پہن لے۔‘‘ اور سر کو ننگا رکھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ محرم کیا پہنے؟ تو آپ نے فرمایا: ( لَا يَلْبَسُ الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ لَا يَجِدَ نَعْلَيْنِ، فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ ) (صحيح البخاري‘ الحج‘ باب ما لا يلبس المحرم...الخ‘ ح: 1542 وصحيح مسلم‘ الحج‘ باب ما يباح للمحرم بحج او عمرة...الخ‘ ح: 1177) ’’وہ قمیصیں، عمامے، شلواریں، ٹوپیاں اور موزے نہ پہنے، ہاں جس کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ موزے پہن لے۔‘‘ یہ جائز نہیں کہ محرم کے سر پر عمامہ یا ٹوپی یا کوئی ایسی چیز ہو جس کو سر پر پہنا جاتا ہو، ہاں البتہ اگر عمامہ ایسا ہو کہ اس سے جسم چھپ سکتا ہو تو اسے چادر کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن شلوار پہننا جائز نہیں لہذا شلوار کے بجائے چادر استعمال کی جائے۔ اگر آدمی نے شلوار نہ پہنی ہو اور اس کے پاس ایسا عمامہ بھی نہ ہو جس کو چادر کے طور پر استعمال کیا جائے تو اس کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ جب ہوائی جہاز، بحری جہاز یا کشتی میں میقات کے برابر پہنچے تو اپنی قمیص ہی میں، جسے اس نے پہنا ہوا ہے، محرم بن جائے اور اپنے سر کو ننگا کر لے۔ جدہ پہنچ کر چادر خرید لے، قمیص اتار دے اور بحالت احرام قمیص پہننے کی وجہ سے کفارہ ادا کرے۔ اس کا کفارہ یہ ہے کہ چھ مسکینوں کو نصف صاع فی مسکین کے حساب سے کھجور، چاول یا کسی دوسری غذائی جنس سے جو شہر کی خوراک ہو، دے دے یا تین روزے رکھے یا ایک بکری ذبح کر دے، اسے اختیار ہے کہ ان تینوں باتوں میں سے جس پر چاہے عمل کرے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن عجرہ کو ان تین باتوں میں سے
Flag Counter