Maktaba Wahhabi

240 - 531
ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر پڑھتے اور جمرہ اولیٰ اور ثانیہ سے فراغت کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے۔ دعا کے وقت آپ جمرہ اولیٰ کو اپنی دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کر لیتے لیکن تیسرے کے پاس وقوف نہ فرماتے۔ تیرہ تاریخ کو رمی جمرات کے بعد آپ روانہ ہوئے اور مقام ابطح میں تشریف لے آئے اور یہاں آپ نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں۔[1] پھر آپ رات کے آخری حصہ میں مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، لوگوں کو نماز فجر پڑھوائی، طواف وداع فرمایا اور پھر چودہ تاریخ کی صبح نماز فجر کے بعد آپ سوئے مدینہ رواں دواں ہو گئے۔ عليه من ربه افضل الصلاة والتسليم۔ اس سے معلوم ہوا کہ حاجی کے لیے سنت یہ ہے کہ ہر ہر عمل کو اس طرح سر انجام دے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر انجام دیا تھا۔ ایام منیٰ میں ہر دن تینوں جمروں کو زوال کے بعد رمی کرے، ہر جمرے کو سات کنکریاں مارے، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہے۔ جمرہ اولیٰ کو رمی کرنے کے بعد رک جائے اور قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے۔ جمرہ اولیٰ کو اپنی بائیں طرف کر لے، جمرہ ثانیہ کو رمی کے بعد بھی وقوف کرے، اسے اپنی دائیں طرف کر لے، لیکن یاد رہے یہ مستحب ہے واجب نہیں ہے، تیسرے جمرے کی رمی کے بعد وقوف نہ کرے۔ اگر زوال کے بعد اور غغروب آفتاب سے پہلے رمی کرنا ممکن نہ ہو تو علماء کے صحیح ترین قول کے مطابق آنے والی رات کے آخری حصہ تک رمی کر سکتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں پر رحمت اور وسعت ہے۔ جو شخص بارہ تاریخ ہی کو رمی جمار کے بعد جلدی کر لے اور چل دے تو اس میں کوئی حرج اور جو شخص یہ پسند کرے کہ وہ ٹھہرا رہے تاکہ تیرہ تاریخ کو بھی رمی جمار کر لے تو یہ افضل ہے کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے موافق ہے۔ حاجی کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ گیارہ اور بارہ کی رات منیٰ میں بسر کرے، بہت سے اہل علم کے نزدیک یہ راتیں منیٰ میں بسر کرنا واجب ہے۔ اگر آسانی سے رات کا اکثر حصہ بسر کرنا ممکن ہو تو یہ بھی کافی ہے اگر کوئی شرعی عذر ہو جیسا کہ کارکنوں اور بکریوں کے چرواہوں وغیرہ کا عذر ہوتا ہے تو ان کے لیے یہاں رات بسر کرنا ضروری نہیں ہے۔ حجاج کے لیے تیرہ تاریخ کی رات منیٰ میں بسر کرنا واجب نہیں ہے جب کہ وہ جلدی کر کے غروب آفتاب سے قبل منیٰ سے رخصت ہو جائیں اور اگر رات منیٰ میں آ جائے تو پھر تیرہ تاریخ کی رات بھی منیٰ ہی میں بسر کی جائے اور تیرہ تاریخ کو زوال کے بعد رمی جمار کی جائے اور پھر وہاں سے رخصت ہو جائے۔ تیرہ تاریخ کے بعد کسی کے لیے رمی کا حکم نہیں ہے خواہ وہ منیٰ ہی میں مقیم ہو۔ حاجی جب اپنے وطن کی طرف واپسی کا ارادہ کرے تو اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ طواف وداع کے لیے بیت اللہ شریف کے گرد سات چکر لگائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (لَا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ حَتَّى يَكُونَ آخِرَ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ) (صحيح مسلم‘ الحج‘ باب وجوب طواف الوداع...الخ‘ ح: 1327 ومسند احمد: 1/222) ’’اس وقت تک کوئی شخص روانہ نہ ہو جب تک اپنا آخری وقت بیت اللہ میں نہ گزار لے۔‘‘ ہاں البتہ حیض اور نفاس والی خواتین کے لیے طواف وداع نہیں ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت ہے[2] کہ لوگوں
Flag Counter