سے پیغمبری حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی پیغمبر ہوا ہے نہ ہوگا۔ جس قدر احکامِ خداوندی کہ بندوں کے حق میں مفید تھے، وہ سب الله پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتار کر دین کو پورا کر چکا اور جب دین پورا ہوچکا، تب الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا۔ اب جو کوئی احکام مذکورہ کے سوائے کوئی دوسرا حکم جاری کرے، وہ حکم ہرگز پابندی کے قابل نہیں ہے اور کسی مسلمان کو اس حکم کا ماننا جائز نہیں ہے۔ مسلمان کو اس حکم کے ماننے سے بچنا چاہیے، ورنہ قیامت میں ضرور پکڑ ہوگی اور الله تعالیٰ پوچھے گا (ہم تو تمہارا دین پورا کر چکے تھے اور ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ [المائدۃ: ۳] نازل کر کے اس کی اطلاع بھی دے دی تھی، پھر تم نے دین کو ناقض کیوں سمجھا اور ہماری بات کو باور کیوں نہ کیا، سچ کیوں نہ سمجھا؟) اس وقت اِس کا کچھ جواب بن نہ آئے گا۔
گیارھویں کی نیاز کرنے کا بھی کوئی ثبوت قرآن مجید یا حدیث شریف سے نہیں ہے، اور مسجد کا بنوانا یا مسجد کی مرمت کرنا، اس کا بہت ثواب ہے، پس جو شخص اس مال کو، جو مسجد کے لیے نکالا گیا ہے، گیارھویں کی نیاز میں خرچ کرنے کو کہے، محض نادان اور بے خبر اور منّاعِ خیر ہے۔ واللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
کلمہ طیبہ کا حقیقی معنی:
سوال: شخصے می گوید کہ معنی حقیقی و مفہوم تحقیقی این کلمۂ توحید یعنی لا الٰہ الا الله ہمین است کہ ہیچ چیز غیر حق نیست، بلکہ تمامی اشیاء باعتبار حقیقت عین وے اند، اگرچہ باعتبار تعین و تشکل اعتباری غیر ہستند و در حق ہمگی علمائے سابقین کہ قائلیں ایں معنی نبودند میگوید کہ تمامی محدثین و مفسرین و جملہ فقہائے متکلمین شرقاً و غرباً، جنوباً و شمالاً و سلفاً و خلفاً کلمہ طیبہ را بکلمہ خبیثہ بدل کردند، یعنی لا الٰہ الا الله ولا الٰہ غیر الله بلا الٰہ الا غیر الله تبدیل دادند و از صراط مستقیم توحید پا بیروں نہادند الرزیۃ کل الرزیۃ تمت عبارتہ بالفاظہ۔ و دیگرے دریں قول وے نظرے میکند کہ معنی مذکور از ادق مسائل است وکد امی ادق مسائل تعلیم اولین ہر امی و دانشمند نتواند و حال این کہ معنی حقیقی کلمہ طیبہ تعلیم اولین ہر امی و دانشمند است پس لا بدی معنی کلمہ طیبہ نہ آنست کہ مذکور شد و سپس آں میگو یدکہ ترکیب کلمہ طیبہ مثل ترکیب لا کاتب الا زید، ولا خاتم النبیین الا محمد است، و چوں مراد ازیں ہر دو ترکیب ہمین است کہ حصر صفتِ کتابت در زید است و حصر صفتِ ختم نبوت در محمد صلی اللہ علیہ وسلم و در غیر آں یافتہ نشود پس ہم چنیں لا الٰہ الا الله را با ید فہمید، چہ الٰہ بمعنی معبود است، پس معنی وی لا معبود الا الله است یعنی حصر صفت معبودیت در الله است و در غیر آں نیست چہ در اعتقاد مشرکین بود کہ الله تعالیٰ و دیگر مخلوق وے لا معبود در صفتِ معبودیت مشترک اند و عبادت غیر وے را نیز می کردند کلمہ طیبہ از بہر رد اعتقاد اوشاں نازل گردید پس معنی لا الٰہ الا الله جز ایں نیست کہ نیست معبودے مگر الله ہم چنیں معنی لا کاتب الا زید نیست کاتبے مگر زید، و در حق علمائے کرام از اہل اسلام ایں زعم کردن کہ او شایاں کلمہ طیبہ را بکلمہ خبیثہ تبدیل دادند و از صراط مستقیم با بیروں نہادند نافہمی زاعم است و خوف تلف ایمان وی واللّٰه أعلم وعلمہ أتم و أحکم۔
|