نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟
سوال: نمازی کے کس قدر آگے سے گزرنا منع ہے؟
جواب: نمازی کی نماز کی جو حد ہے، یعنی جہاں سترہ قائم کرنے کا حکم ہے، اس کے آگے سے گزر سکتا ہے، اس کے اندر گزرنا منع ہے۔ صحیحین میں ہے:
’’عن أبي جحیفۃ: رأیت بلالا أخذ عنزۃ فرکزھا، وخرج رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في حلۃ حمراء مشمرا، صلی إلی العنزۃ بالناس رکعتین، ورأیت الناس والدواب یمرون بین یدي العنزۃ‘‘ (متفق علیہ) [1]
[میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے چھوٹا نیزہ لے کر گاڑ دیا، پھر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تیزی سے تشریف لائے، آپ نے چھوٹے نیزے کی طرف رخ کر کے لوگوں کو دو رکعتیں پڑھائیں اور میں نے لوگوں اور چوپاؤں کو نیزے کے آگے سے گزرتے ہوئے دیکھا]
سترہ قائم کرنے کی جگہ سجدہ گاہ کے آگے ہے، جو قریب ڈھائی تین ہاتھ کے ہے۔
’’عن نافع أن عبد اللّٰه کان إذا دخل الکعبۃ مشیٰ قبل وجھہ حین یدخل، وجعل الباب قبل ظھرہ، فمشیٰ حتی یکون بینہ وبین الجدار الذي قبل وجھہ قریبا من ثلاثۃ أذرع صلیٰ، یتوخیٰ المکان الذي أخبرہ بہ بلال أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم صلیٰ فیہ‘‘ (بخاري بعد باب الصلاۃ بین السواري في غیر جماعۃ) [2]
[نافع بیان کرتے ہیں کہ عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبے کے اندر داخل ہوتے تو سامنے کی طرف چلتے اور دروازہ اپنی پیٹھ کی طرف چھوڑ دیتے، پھر اس طرح چلتے اور جب سامنے کی دیوار تقریباً تین ہاتھ رہ جاتی تو نماز پڑھتے تھے، اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنے کا اہتمام کرتے تھے، جس کے متعلق بلال رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا تھا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نماز پڑھی تھی]
’’وعن سھل بن سعد قال: کان بین مصلیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وبین الجدار ممر الشاۃ‘‘ (بخاري، باب قدر کم ینبغي أن یکون بین المصلي والسترۃ) [3]
[سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے نماز اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزرنے کے برابر جگہ ہوتی تھی]
قال الحافظ في الفتح (۲/ ۲۸۶): ’’قال ابن بطال: ھذا أقل ما یکون بین المصلي
|