کتاب الطہارۃ
دھوپ میں رکھے ہوئے پانی کا حکم:
سوال: دھوپ میں رکھا ہوا پانی وضو اور غسل میں استعمال کرنا چاہیے؟
جواب: وضو اور غسل میں اس کا استعمال بلا کراہیت جائز ہے، چنانچہ میزان شعرانی میں ہے:
"ومن ذلک قول الأئمۃ الثلاثۃ بعدم کراھۃ استعمال الماء المشمس في الطھارۃ مع الأصح من مذھب الشافعي من کراھیۃ استعمالہ، فالأول مخفف، والثاني مشدد، فرجع إلی مرتبتي المیزان، و وجہ الأول عدم صحۃ دلیل فیہ، فلو أنہ کان یضر الأمۃ لبینہ لھم رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ولو في حدیث واحد، أما والأثر في ذلک عن عمر رضی اللّٰه عنہ فضعیف جدا فبقي الأمر فیہ علیٰ الإباحۃ" [1]
[اس سلسلے میں ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ طہارت کے لیے ماے مشمس(دھوپ میں گرم ہونے والا پانی) کا استعمال مکروہ نہیں ہے، جب کہ صحیح قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ ایسے پانی کے استعمال کی کراہیت کے قائل ہیں ۔ پہلے قول میں آسانی ہے، جب کہ دوسرے قول میں شدت پائی جاتی ہے۔ پہلے قول کی بنیاد یہ ہے کہ اس پانی کے استعمال میں کراہت کی کوئی صحیح دلیل ثابت نہیں ہے تو یہ دونوں ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکھے جائیں گے۔ اگر ایسا پانی نقصان دہ ہوتا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اس کی وضاحت فرما دیتے، چاہے کسی ایک حدیث ہی میں سہی۔ اور اس کے متعلق میں جو عمر رضی اللہ عنہ سے اثر مروی ہے، وہ انتہائی ضعیف ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ ایسا پانی استعمال کرنا مباح اور جائز ہے]
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بحکمِ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پانی کو تابِ آفتاب میں گرم ہونے کو رکھا، واسطے غسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ و الله أعلم۔ کتبہ: محمد علی اطہر، غفر الله لہ ولوالدیہ۔
اس بارے میں کہ دھوپ میں رکھا ہوا پانی وضو اور غسل میں استعمال کرنا چاہیے یا نہیں ؟ کوئی صحیح حدیث معلوم نہیں ہوتی، ہاں اگر طبی طور پر اس پانی کا استعمال مضر ثابت ہو تو اس کا استعمال ناجائز ہوگا، ورنہ جائز۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۶؍ ذی الحجۃ ۱۳۳۲ھ)
|