’’رجل زوج ابنتہ الصغیرۃ من رجل علی ظن أنہ صالح لا یشرب الخمر فوجدہ الأب شریبا مدمنا، وکبرت الابنۃ، فقالت: لا أرضیٰ بالنکاح، إن لم یعرف أبوھا بشرب، وغلبۃ أھل بیتہ الصالحون، فالنکاح باطل أي یبطل، وھذہ المسئلۃ بالاتفاق، کذا في الذخیرۃ‘‘
’’ایک شخص نے اپنی بیٹی صغیرہ کا نکاح ایک شخص سے، اس گمان پر کہ وہ شخص نیک چلن ہے اور شراب نہیں پیتا ہے، کر دیا، بعد میں اس لڑکی کے باپ نے اس شخص کو (جس سے اپنی لڑکی کا نکاح کر دیا تھا) شرابی پایا۔ اب لڑکی بڑی ہوئی اور صاف اس نے کہا کہ میں اس نکاح سے راضی نہیں ہوں تو اگر باپ لڑکی کا نشہ خواری میں مشہور نہ تھا اور اس کے گھر والے اکثر نیک چلن ہیں ، پس ایسی صورت میں نکاح باطل ہوجاتا ہے اور یہ مسئلہ متفق علیہ فقہا حنفیہ کا ہے، جیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔‘‘
حاشیہ در مختار عرف شامی ’’باب الکفو‘‘ میں ہے
’’إذا کان الأب صالحا، وظن الزوج صالحا فلا یصح۔ قال في البزازیۃ: رجل زوج بنتہ من رجل ظنہ مصلحا لا یشرب مسکراً فإذا ھو مدمن، فقالت بعد الکبر: لا أرضٰی بالنکاح، إن لم یکن أبوھا یشرب المسکر، ولا عرف بہ، وغلبۃ أھل بیتھا مصلحون، فالنکاح باطل بالاتفاق‘‘[1]انتھی
’’ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح ایک شخص سے اس گمان پر کر دیا کہ وہ شخص نشہ خوار نہیں ہے اور نیک چلن ہے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بڑا نشہ خوار ہے۔ بعد بڑے ہونے، یعنی بالغ ہونے کے خود اس لڑکی نے کہا کہ میں نکاح سے راضی نہیں ہوں ، اس صورت میں اگر باپ اس لڑکی کا نشہ خوار نہیں ہے اور نہ اس امر میں مشہور ہے اور لڑکی کے گھر والے بھی اکثر نیک چلن ہیں تو یہ نکاح باطل ہے باتفاق فقہاے حنفیہ۔‘‘
ان روایتوں سے کتبِ فقہ حنفیہ کے صاف صاف نکاح کے باطل ہونے کا حکم نکلتا ہے، دونوں میں تفریق ضروری ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ عبد الحکیم، عفا اللّٰه عنہ صادقپوري۔ للّٰه در من أجاب۔ أبو المجد عبد الصمد البہاري، غفرلہ ولوالدیہ۔ المجیب مصیب۔ علی حیدر عفا اللّٰه عنہ لکھنوي۔ أصاب من أجاب۔ أبو محمد إبراہیم، و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
مفقود الخبر شوہر کا حکم:
سوال: مسماۃ ہندہ کا نکاح ورثاے ہندہ نے مسمی زید سے کر دیا۔ بعد گزرنے دو ماہ نکاح کے مسمی زید مفقود الخبر ہوگیا، جس کو عرصہ دس برس کا گزر گیا۔ ورثاے ہندہ نے مسمی زید کو بہت تلاش کیا، کچھ پتا نہیں ملتا اور مسماۃ ہندہ جوان
|