[آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کرے۔ اس کا نکاح باطل ہے، اگر جھگڑا ہو جائے تو بادشاہ ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو]
وفي نیل الأوطار (ص: ۲۲۶):
’’فإذا لم یکن ثمہ ولي أو کان موجودا وعضل، انتقل الأمر إلی السلطان، لأنہ ولي من لا ولي لہ، کما أخرجہ الطبراني من حدیث ابن عباس، وفي إسنادہ الحجاج بن أرطاۃ‘‘ اھ
اگر نکاح میں ولی موجود نہ ہو یا ہو اور وہ ولایت کے قابل نہ ہو تو بادشاہ ولی ہوگا۔
وفي فتح الباري (ص: ۵/ ۷۲):
’’وفي إسنادہ الحجاج بن أرطاۃ وفیہ مقال، و أخرجہ سفیان في جامعہ، ومن طریقہ الطبراني في الأوسط بإسناد آخر حسن عن ابن عباس بلفظ: لا نکاح إلا بولي مرشد أو سلطان‘‘ اھ
[اس کی سند میں حجاج بن اَرطاۃ راوی متکلم فیہ ہے۔ سفیان نے اسے اپنی جامع میں بیان کیا ہے، اس کے طریق سے ایک دوسری حسن سند سے امام طبرانی رحمہ اللہ نے ’’المعجم الأوسط‘‘ میں عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے درجِ ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے: صحیح ولی یا بادشاہ کے بغیر نکاح نہیں ہے]
باقی رہا یہ امر کہ ہندہ کا یہ نکاح اس کی منظوری سے ہوا یا نہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شہادتِ معتبرہ سے سے ثابت ہو کہ ہندہ کی منظوری سے نکاح مذکور ہوا تھا اور اب بخوف زد و کوب منظوری سے انکار کرتی ہے تو نکاح مذکور صحیح ہوگیا اور اب زید یا ہندہ کا کہنا کہ یہ نکاح بمنظوری ہندہ نہیں ہوا ہے، نا معتبر ہے، ورنہ معتبر ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مدرسہ احمدیہ ۱۲۹۸ھ) سید محمد نذیر حسین
کیا عورت اپنا یا دوسری عورت کا نکاح کر سکتی ہے؟
سوال: عورت اپنے نفس کا یا عورت عورت کا نکاح کر سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب: عورت نہ خود اپنا نکاح کر سکتی ہے اور نہ دوسری کا نکاح کر سکتی ہے۔ قال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا﴾ (البقرۃ: ۲۲۱) [اور نہ (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں دو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ] وقال تعالیٰ:﴿وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ﴾ (النور: ۳۲) [اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں اور عورتوں کا نکاح کر دو]
وعن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل )) [1] الحدیث (رواہ أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجہ والدارمي)
|