بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً﴾ [اور میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت مت لو] ملاحظہ ہو، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ متقدمین حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہے اور جمہور علما و نیز متاخرین حنفیہ کے نزدیک جائز ہے، خصوصاً جبکہ یہ اجارہ بقید زمان و مکان ہو۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ تا امکان احتراز اس سے اَحوط و بہتر ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ عباراتِ کتب محولہ بوجہ قلتِ فرصت نقل نہ ہوسکیں ۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۳؍ محرم ۱۳۳۵ھ)
اجارہ کب فسخ ہوتا ہے؟
سوال: زید کی دو بیویاں ہیں ، ایک زبیدہ محلِ اولیٰ، دوسری ہندہ محلِ ثانیہ۔ زید نے دونوں کا مہر اپنی زندگی میں ادا کر دیا۔ بعد اس کے ایک جائداد اپنی مقرری تاحیاتی ہندہ کو لکھ دیا، یعنی اجارہ تاحیات مستاجرہ باجر اقل قلیل برعایت حال و نفع رسانی زوجہ ثانیہ کے دیا، یعنی وثیقہ اس کا لکھ کر رجسٹری کرا دی، جس کو غالباً بارہ برس گزر گئے، مگر اس جائداد و اراضی کو زید نے تاحیات اپنے ہی قبضہ میں رکھا اور نگارش وثیقہ سے غرض اور مقصود زید کا یہ تھا کہ بعد اس کے زوجہ ثانیہ تاحیات اپنی اس معاش سے متمتع رہے، اس اثنا میں زید نے اس زوجہ ثانیہ کو کسی وجہ سے طلاق دے دی، جس کو بھی سالہاے چند ہوئے، بعدہ زید نے جملہ جائداد اپنے وارثوں کو تقسیم کر دی، سواے مسماۃ زبیدہ مذکورہ زوجہ محلِ اولی کے جو تاحیات زید کی بیوی رہی، اس کو زید نے کچھ نہیں دیا اور نہ کچھ متروکہ علاوہ چھوڑا جو مسماۃ زبیدہ مذکورہ کو حق زوجیت میں ملے۔ چند روز ہوئے کہ زید مر گیا اور اس جائداد کی، جس کا ذکر اوپر ہوا، مسماۃ ہندہ زن مطلقہ زید کی دعویدار ہے کہ حسبِ نوشتہ زید کے بعد وفات اس کی وہ جائداد اس کے تصرف میں آئے اور مسماۃ زبیدہ زوجہ محلِ اولیٰ دعویٰ کرتی ہے کہ مجھ کو میراثِ زوجیت ملنی چاہیے۔ پس علما سے استفسار ہے کہ آیا وہ جائداد حسبِ نوشتہ زید پائے گی یا مسماۃ زبیدہ، شرعاً کیا حکم ہے اور اگر وہ زنِ مطلقہ حسبِ نوشتہ زید تو کس بنا پر ؟ وراثت تو بوجہ طلاق رہی نہیں ۔ دوسری صورت انحائِ تملیک شرعیہ میں سے کون ہے جو بمقابلہ حق میراث زن اولیٰ نافذ ہوگی؟ ظاہراً یہ صورت تو اجارہ مضاف بعد الموت کی ہے تو اس قسم کی اجارہ کی کیا وجہ ہے؟
جواب: یہ اجارہ بعد مرجانے زید آجر کے فسخ ہوگیا، اس لیے کہ اجارہ احد العاقدین کے مرجانے سے فسخ ہوجاتا ہے۔
’’تنفسخ بلا حاجۃ إلی الفسخ بموت أحد العاقدین‘‘
(دیکھو: در مختار مع رد المحتار، چھاپہ مصر: ۵/ ۵۶)
[وہ (اجارہ) فسخ کی حاجت کے بغیر احد العاقدین کی موت کے ساتھ فسخ ہوجاتا ہے]
پس اس صورت میں وہ جائداد جس کو زید نے مسماۃ ہندہ زن مطلقہ اپنی کو اجارہ دیا تھا، مسماۃ زبیدہ زوجہ زید کو جو تاحیاتِ زید زوجیت میں رہی ہے، حق زوجیت میں ملے گی، بشرطیکہ جائداد مذکورہ اس کی حق زوجیت سے زائد نہ ہو اور اگر زائد ہو تو جس قدر زائد ہو، دیگر وارثانِ زید کو بحصص رسدی ان کے ملے گی۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه
|