میں خلل واقع ہوا یا نہیں ؟
جواب: جواب نمبر 4 سے جواب نمبر5 کا ظاہر ہے، کیونکہ اس میں بھی قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی کی کھال کا بیچنا ہے، جو ناجائز ہے اور اس میں جو معاہدہ ہے وہ ناجائز ہے، مزید براں ایک اور امر بھی ناجائز ہے، وہ یہ کہ جس قدر قصاب کی رعایت ملحوظ ہوگی، اُس قدر قربانی کی کھال اُجرت میں محسوب ہوگی اور قربانی کی کھال کل ہو، خواہ بعض، قصاب کی اجرت پر دینا ناجائز ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
قربانی کے گوشت کا حکم:
سوال: ایک شخص زندہ ہے۔ وہ شخص باقی چھ حصے گائے میں مُردوں کی جانب سے قربانی کر کے تمام گوشت کو کھا سکتا ہے یا تیسرا حصہ مساکین کو تقسیم کر کے اور مُردوں کی جانب کا حصہ صدقہ ہوگا تو اپنے حصے کا گوشت قربانی کرنے والا شخص صاحبِ نصاب کھا سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: قربانی کے گوشت کے بارے میں یہ حکم ہے کہ (( کلوا و أطعموا و ادخروا )) [1] یعنی کھاؤ اور کھلاؤ اور دوسرے وقتوں کے لیے رکھ چھوڑو۔ ایک حدیث میں ہے:
(( کلوا وادخروا و تصدقوا )) [2] کھاؤ اور دوسرے وقتوں کے لیے رکھ چھوڑو اور صدقہ کرو۔
ایک حدیث میں ہے:
(( کنت نھیتکم عن لحوم الأضاحي فوق ثلاث لیتسع ذو الطول علی من لا طول لہ، فکلوا ما بدا لکم، وأطعموا، وادخروا )) [3]
یعنی وسعت والے بے وسعت والے پر وسعت کریں ، یعنی صدقہ کریں ، اس کے بعد کھاؤ جتنا چاہو اور کھلاؤ اور دوسرے وقتوں کے لیے رکھ چھوڑو۔
یعنی قربانی کے گوشت میں ان سب مذکورہ بالا باتوں کا اختیار ہے۔ صورت مسؤلہ میں اس کے سوا کوئی حکم میری نظر سے نہیں گزرا ہے، بلکہ ذیل کی حدیث سے یہی حکم اس صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ومن ادعی خلاف ذلک فعلیہ البیان۔ وہ حدیث یہ ہے:
عن علي بن الحسین عن أبي رافع أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم کان إذا ضحیٰ اشتری کبشین سمینین أقرنین أملحین، فإذا صلیٰ وخطب الناس أتي بأحدھما، وھو قائم في مصلاہ فذبحہ بنفسہ بالمدیۃ، ثم یقول: (( اللّٰهم إن ھذا عن أمتي جمیعاً، ممن شھد لک بالتوحید،
|