مقدمۃ التحقیق
استاذ الاساتذہ حافظ محمد عبد الله صاحب محدث غازی پوری رحمہ اللہ (۱۸۴۴۔ ۱۹۱۸ء) برصغیر کے اکابر علماے دین میں بلند مقام کے حامل تھے۔ انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ علومِ دینیہ کے درس و تدریس میں گزارا اور بے شمار لوگوں نے آپ سے استفادہ کیا۔ ہندوستان میں جب دسمبر ۱۹۰۶ء کو جماعت اہلِ حدیث کی اولین تنظیم ’’آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس‘‘ آرہ شہر میں معرضِ وجود میں آئی تو بڑے بڑے نامور علما کی موجودگی میں آپ ہی کو اس کا پہلا صدر منتخب کیا گیا تھا اور تاحیات آپ اس مقتدر جماعت کے عہدۂ صدارت پر فائز رہے۔
آپ ۱۲۶۰ھ (۱۸۴۴ء) کو ضلع اعظم گڑھ کے شہر مؤ میں پیدا ہوئے۔ یہ علاقہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش میں واقع ہے۔ آپ نے سب سے پہلے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کیا، پھر حصولِ علم کے لیے غازی پور اور جون پور گئے اور وہاں کے بعض اساتذہ سے استفادہ کیا۔ بعد ازاں دہلی جا کر میاں نذیر حسین محدث دہلوی سے کتبِ حدیث پڑھیں ۔ ۱۲۹۷ھ میں حج کے لیے حجاز گئے اور وہاں امام شوکانی کے شاگرد علامہ عباس بن عبدالرحمن یمنی سے سندِ حدیث لی۔ آپ نے منگل کے روز دوپہر تین بجے ۲۱؍ صفر ۱۳۳۷ء (۲۶؍ نومبر ۱۹۱۸ء) کو لکھنو میں وفات پائی۔ [1]
حضرت حافظ صاحب غازی پوری رحمہ اللہ مختلف مقامات پر درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے غازی پور، آرہ، دہلی اور لکھنؤ میں سالہا سال علومِ نقلیہ و عقلیہ کا درس دیا اور بے شمار علماے کرام نے آپ سے کسبِ فیض کیا، جن میں اپنے دور کے بڑے بڑے نامور مدرسین اور مصنفین شامل ہیں ۔ ہندوستان میں میاں نذیر حسین صاحب محدث دہلوی کے بعد ان کے دو ہی شاگردوں کو تلامذہ کا اتنا بڑا حلقہ میسر آیا۔ ایک تھے محدثِ پنجاب حافظ عبدالمنان صاحب وزیر آبادی اور دوسرے حضرت حافظ صاحب غازی پوری رحمہما اللہ۔ سالہا سال علوم و فنون کے درس و تدریس کا نتیجہ تھا کہ آپ اس دور کے متداول علوم میں رسوخ کے مالک اور علما و عوام کے لیے مرجع کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ عوام تو عوام بڑے بڑے نامی گرامی علماے دین بھی بعض مسائل کی توضیح و تفہیم کے لیے آپ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے۔
تراجم علماے حدیث کے مصنف ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی بیان کرتے ہیں کہ صاحبِ عون المعبود علامہ شمس الحق
|