والمجزرۃ والمقبرۃ۔۔۔‘‘ الحدیث۔ (مشکوۃ شریف، باب المساجد و مواضع الصلاۃ) [1]
[ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے سات جگہوں ، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر، ذبح خانہ اور قبرستان۔۔ ۔ میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا]
یہ بھی واضح رہے کہ کسی امر کے شرعاً ثابت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کا کرنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کچھ فعل ہی میں منحصر نہیں ہے۔ آپ کا قول، فعل، تقریر؛ یہ سب حدیث میں داخل ہیں ۔ پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں نماز پڑھنا فعلاً ثابت نہ ہو اور قولاً ثابت ہو تو اس قدر شرعاً اس کا جواز ثابت ہونے کے لیے کافی ہے، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہندوستان میں کہیں نماز پڑھنا ثابت نہیں ہے اور قولاً ثابت ہے تو اس قدر ہندوستان میں نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوجانے کے لیے کافی ہے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبرستان میں نماز ، فعلاً ثابت ہے نہ قولاً، بلکہ قولاً ممانعت ثابت ہے۔ کما تقدم۔
پرا نی قبروں کی جگہ پر مسجد تعمیر کرنا:
سوال: ایک کچی مسجد کو توڑ کر پختہ مسجد بنانے کا ارادہ کر کے نیو کھودوانا شروع کیا۔ مسجد کے پچھم جانب نیو سے دو ہاتھ اور بڑھ کر اور تر جانب چھ ہاتھ مسجد سابق سے بڑھ کر نیو کھودوانا شروع کیا۔ ایک گز نیچے کے اندر ہڈی آدمی کی نکلی۔ یہ نہیں کوئی کہہ سکتا کہ یہ ہڈی مسلمان کی ہے یا مشرک کی یا ہندو کی اور یہ بھی پوری شہادت کوئی بزرگان نہیں دے سکتے کہ ہم نے سنا ہے، کسی بزرگوں کی زبانی کہ یہاں قبرستان ہے۔ لیکن وہاں کے دیکھنے سے غالباً معلوم ہوتا ہے کہ قبرستان کسی زمانے کا ہے، ہندو یا مسلمان یا مشرک وغیرہ کسی کا ہو۔ اگر اس نیو میں ہڈی نکل گئی تو اُس سے ہٹ کر یا سابق مسجد کی نیو پر مسجد بنانا جائز ہے یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ ہم نے مسجد کو توڑ دیا اور اُس زمین پر مسجد بنانا جائز نہ ہو تو ہم پر ازروئے خدا و رسول کے حکم کے کیا ہے؟ صاف جواب ہماری سمجھ کے مطابق تحریر فرمائیے گا۔
سا ئل: صاحب علی خان و عباس خان۔ از موضع بارہ، ضلع غازیپور، ڈاکخانہ گہمر
جواب: سوال سے معلوم ہوا کہ اس جگہ کے دیکھنے سے غالباً معلوم ہوتا ہے کہ وہ جگہ کسی زمانے کا قبرستان ہے۔ مجھ کو جہاں تک معلوم ہے، وہ یہی ہے کہ اہلِ ہند کے قبرستان نہیں ہوا کرتے۔ وہ لوگ اپنے مُردوں کو جلا کر دریا میں بہا دیا کرتے ہیں ، پس اگر یہ امر صحیح ہے تو ایسی حالت میں غالب یہی ہے کہ وہ جگہ کسی زمانے میں مسلمانوں کا قبرستان رہی ہے اور قبر پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے۔
پس اگر سابق مسجد کی زمین میں قبر ہونے کا ثبوت نہ ہو تو سابق مسجد کی نیو پر مسجد بنانا جائز ہے، بلکہ ضرور ہے، کیونکہ جو زمین ایک دفعہ مسجد ہوچکی، وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہوگئی، پھر اُس کا احترام اور اس کی صفائی ہمیشہ کے لیے
|