کیا ولد الحرام سردار اور امام بن سکتا ہے؟
سوال: ایک شخص نے یکے بعد دیگرے ایامِ جاہلیت میں دو بہن کو شادی کر کے اپنی زوجیت میں رکھا۔ عورت ثانی کی طرف سے جو لڑکا پیدا ہوا، فن دنیاوی میں بہت ہوشیار، بوجہ مصلحت کے سردار اعلی نے ہمراہ امام جماعت کے چودھری سردار اس کو بھی مقرر کیا، بوجہ معین شریعت محمدیہ اور بندوبست امورِ دینیہ کے اب اختلاف ہے درمیان مسلمانوں کے اس بات پر کہ لڑکا حرامی جب محرومِ میراث ہے تو سرداری اس کی نادرست اور نماز اس کے پیچھے ناجائز اور عبادت اس کی فاسد۔ لہٰذا نزدیک محدثین عرض ہے کہ مطابق حکم الله و رسول کے جواب تحریر فرمائیں ۔
جواب: جس شخص میں سرداری کی شرطیں پائی جائیں ، اس کی سرداری درست ہے اور حرامی ہونا ایسی سرداری کا مانع نہیں ہے، جس کی نسبت سوال ہے۔ ہاں امام اعظم (یعنی امام عامہ مسلمین) ہونے کو البتہ مانع ہے، کیونکہ اس امامت میں قرشی ہونا شرط ہے اور حرامی شخص قرشی ہو نہیں سکتا، اس لیے کہ شرع شریف میں نسب آبا سے معتبر ہے، نہ کہ امہات سے، تو اگر زانی شخص قرشی بھی ہو، تب بھی حرامی لڑکا قرشی نہیں ہوسکتا، اس لیے کہ زانی شخص شرعاً ولد الزنا کا باپ نہیں ہے کہ اس کے قرشی ہونے سے ولد الزنا بھی قرشی ہوجائے۔ بلوغ المرام ’’باب القضاء‘‘ میں ہے:
عن بریدۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( القضاۃ ثلاثۃ، اثنان في النار، وواحد في الجنۃ، رجل عرف الحق فقضیٰ بہ فھو في الجنۃ، ورجل عرف الحق فلم یقض بہ، وجار في الحکم فھو في النار، ورجل لم یعرف الحق فقضی للناس علی جھل فھو في النار )) [1]
(رواہ الأربعۃ، و صححہ الحاکم)
بریدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حاکم تین طرح کے ہیں ، دو دوزخی ایک جنتی، جس حاکم نے حق والے کا حق دریافت کیا اور اسی کے مطابق فیصلہ بھی کیا، وہ حاکم جنتی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تو دریافت کر لیا، لیکن فیصلہ اس کے مطابق نہیں کیا، بلکہ جان بوجھ کر حق کے خلاف فیصلہ کیا، وہ حاکم دوزخی ہے اور جس حاکم نے حق والے کا حق تک بھی دریافت نہیں کیا اور یوں ہی بے سمجھے بوجھے فیصلہ سنا دیا، وہ حاکم بھی دوزخی ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ ذی علم اور سمجھ دار اور دیانت دار اور انصاف ور ہو۔ اگر ذی علم اور سمجھدار نہ ہو گا، تو حق و ناحق میں فرق نہ کر سکے گا اور اگر دیانت دار اور انصاف ور نہ ہوگا تو ٹھیک ٹھیک حق بحق فیصلہ نہ کرے گا۔ صحیح بخاری ’’کتاب الأحکام، باب متی یستوجب الرجل القضاء‘‘ میں ہے:
’’قال مزاحم بن زفر: قال لنا عمر بن عبد العزیز: خمس إذا أخطأ القاضي منھن
|