اَخْدَانٍ﴾ (سورۃ المائدۃ: ۵) [اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے] شاہ ولی الله صاحب مصفی ترجمہ موطا میں فرماتے ہیں : ’’مترجم می گوید قول خدائے تعالیٰ:﴿وَ لَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ﴾ دلالت می کند بتحریم نکاح سر‘‘ (مصفی: ۲/ ۳) [مترجم کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا فرمان:﴿وَ لَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ﴾ خفیہ نکاح کے حرام ہونے پر دلالت کرتا ہے]
ولقولہ علیہ السلام (( أعلنوا النکاح )) [1] (رواہ أحمد و صححہ الحاکم، عن عامر بن عبد اللّٰه بن الزبیر عن أبیہ۔ بلوغ المرام، کتاب النکاح)
[نیز (خفیہ نکاح) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے (بھی جائز نہیں ہے): نکاح کا اعلان کرو]
اس لیے کہ بغیر اجازت ولی کے محض عورت کی خواہش کے موافق کیا گیا، حالانکہ ولی کی اجازت شرط ہے اور عورت بغیر اجازت ولی کے نکاح کی مختار نہیں ۔ لقولہ علیہ السلام (( لا نکاح إلا بولي )) [2]
[آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے: ولی (کی اجازت) کے بغیر نکاح نہیں ہوتا]
وقال: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فإن دخل بھا فلھا المہر بما استحل من فرجھا )) [3]
[اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے۔ اگر شوہر اس سے صحبت کر لے تو اس کو مہر دینا پڑے گا، کیوں کہ اس نے اس کی شر م گاہ کو حلال کیا ہے]
وقال: (( لا تزوج المرأۃ المرأۃ۔ ولا تزوج المرأۃ نفسھا، فإن الزانیۃ ھي التي تزوج نفسھا )) [4] (مشکوۃ باب، الولي في النکاح)
[آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے، نہ عورت خود اپنا نکاح کرے کیوں کہ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے]
کتبہ: نور الدین، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتب محمد عبد اللّٰه (۲۴؍ رمضان المبارک) الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو یوسف محمد عبدالمنان الغازیفوري
گواہوں کے بغیر نکاح کا حکم:
سوال: ہندہ کا نکاحِ ثانی زید سے ہوا، لیکن گواہ و وکیل بوقتِ نکاح نہ تھا۔ صرف ایک شخص نکاح پڑھانے والا تھا
|