کتاب الوقف
وقف کرنے والے کی نیت کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:
سوال: ایک موضع میں ایک مسجد کے متعلق کسی قدر جائداد وقف ہے اور کچھ رقم جمع ہوتی تھی۔ چونکہ اس موضع میں کوئی مدرسہ دینیہ وغیرہ ایسا نہ تھا جس میں یہ روپیہ صَرف ہوتا، اس واسطے اس گاؤں سے علیحدہ دوسری جگہ کے مدرسہ میں یہ روپیہ بھیجا جاتا تھا اور اسی مدرسہ میں برابر صَرف ہوتا تھا۔ اب کے اس گاؤں میں بمشورہ یہاں کی جماعت کے ایک مدرسہ دینیہ کھولا گیا ہے اور یہ مشورہ ہوا ہے کہ گاؤں کے غربا کے لڑکوں کو جو دوسری جگہ جا کر تعلیم پانے میں سخت مجبور ہیں ، ان کو ﷲ دینی تعلیم دی جائے، کیونکہ یہاں مدرسہ قائم ہونے سے بخوبی وہ لوگ تعلیم پا سکتے ہیں اور پا رہے ہیں ، مگر اس مدرسہ کے اخراجات کے لیے کوئی دوسری صورت نہیں ہے، بجز یہی سب رقم کے۔ پس اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ سب رقم جو دوسری غیر جگہ کے مدرسہ میں دی جاتی تھی، وہ رقم اس مدرسہ میں جہاں سے یہ آمدنی ہے، خرچ کی جائے یا نہیں اور یہ مدرسہ اس رقم آمدنی کا مستحق ہے یا نہیں ؟ دوسرے یہ کہ اس موضع کا مدرسہ جو مذکورہ رقم آمدنی کی جگہ ہے، آیا یہ مدرسہ زیادہ مستحق ہے یا مدرسہ غیر جگہ کا؟
جواب: واقف اپنے وقف میں جو شرط کرے، اس کی پابندی لازم ہوتی ہے، بشرطیکہ شرط مذکور خلافِ قانونِ شرع نہ ہو۔ لحدیث (( من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فھو رد )) [1] (رواہ مسلم)
[جس نے ہمارے طریقے کے خلاف کوئی کام کیا تو وہ مردود اور باطل ہے]
ولحدیث (( ما کان من شرط لیس في کتاب اللّٰه فھو باطل، وإن کان مائۃ شرط )) [2] (رواہ الشیخان)
[جس نے کوئی ایسی شرط لگائی جو کتاب الله میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے، اگرچہ وہ سو شرطیں لگائے]
پس صورتِ مسؤل عنہا میں جبکہ واقف نے ایک خاص موضع کی مسجد کے متعلق اپنی جائداد وقف کی ہے، جیسا کہ سوال میں درج ہے تو اس مسجد کے سوا اور کسی دوسری جگہ جائداد مذکور کی آمدنی کا خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ اب جو سُکَّان موضع مذکور کے مشورہ سے اس موضع میں مدرسہ دینیہ کا قائم کرنا قرار پایا ہے تو اگر مدرسہ مذکور منجملہ مصالح ہے، جس سے مسجد مذکور کی آبادی متصور ہے تو اس مدرسہ میں آمدنی مذکور کا خرچ کرنا جائز ہے، ورنہ نہ اس مدرسہ میں اور نہ کسی دوسری جگہ میں اس کا خرچ کرنا جائز ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۸؍ رمضان مبارک ۱۳۲۷ھ)
|