2۔ اس نمبر کے متعلق ایک رسالہ ہے، جس کا نام ’’رکعات التراویح‘‘ ہے۔[1]اس رسالے میں جواب نمبر۶ مفصل ملے گا، لہٰذا ایک جلد رسالہ مذکورہ ارسالِ خدمت ہے۔ کتبہ (۴؍ذی الحجہ ۱۳۳۱ھ)
نمازِ جمعہ کے مسائل
کیا خطبہ جمعہ اور نمازِ جمعہ الگ الگ شخص پڑھا سکتا ہے؟
سوال: اگر جمعہ کی نماز ایک شخص پڑھائے اور خطبہ دوسرا شخص تو یہ صورت جائز ہے یا نہیں اور خطبہ جمعہ فرض ہے یا سنت؟
جواب: جمعہ کی نماز ایک شخص پڑھائے اور خطبہ دوسرا شخص، عہدِ نبوت ۔علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات۔ میں ایسا واقعہ پایا نہیں جاتا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطیب و امام کا نمازِ جمعہ میں اتحاد شرط ہے، پس ایسی صورت میں اگر بضرورت ایسا کرتا ہے تو عدمِ جواز کا حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے اور خطبہ جمعہ کا ترک کبھی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، تو کبھی اس کو ترک کرنا نہ چاہیے، خواہ اس کا نام فرض رکھا جائے یا اور کچھ رکھا جائے، لیکن ترک نہ کیا جائے۔ حدیث شریف میں آیا ہے:
(( صلو کما رأیتموني أصلي )) [2] (رواہ البخاري عن مالک بن الحویرث رضی اللّٰه عنہ )
[تم ویسے نماز پڑھو، جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے]
کیا جمعہ میں اتحادِ خطیب و امام شرط ہے؟
سوال: نابالغ لڑکا خطبہ پڑھاتا ہے اور دوسرا شخص جمعہ کی نماز پڑھاتا ہے تو یہ قرآن و حدیث سے جائز ہے نہیں ؟ یا یہ کہ دوسرا شخص خطبہ پڑھائے اور کوئی دوسرا نماز پڑھائے تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: اس باب میں جہاں تک معمول عہدِ نبوت ۔علی صاحبہا الصلوات والتسلیمات۔ میں پایا گیا ہے، یہی ہے کہ ایک ہی شخص خطبہ پڑھے اور نماز پڑھائے اور یہ امر کہ خطبہ پڑھنے والا اور شخص ہو اور نماز پڑھانے والا اور شخص، اس کا وجود اس عہد میں کتابوں سے ثابت نہیں ہوتا، پس بلاضرورت اس معمول کی تبدیلی مستحسن نہیں ہے۔ ہاں اس کی دلیل بھی نظر سے نہیں گزری کہ اس باب میں اتحادِ خطیب و امام شرط ہے اور در صورتِ اختلاف خطیب و امام نماز صحیح نہیں ہے، لیکن اگر کسی ضرورت سے ایسا کریں تو اس کے جواز میں کوئی تردد نہیں ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ أبو الصمصام محمد عبدالرحمن عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
مسجد میں آنے سے روکنا اور کفار کا مسجد میں داخل ہونا:
سوال: ایک شخص مسجد میں جمعے کی نماز پڑھنے جاتا تھا۔ بعض آدمیوں نے اس کو منع کیا کہ تم اس مسجد میں نماز پڑھنے
|