ایک سال تک تلاش کیا، پھر جب وہ نہ ملا تو (وہ اس لونڈی کی قیمت سے غریبوں کو) ایک ایک دو دو درہم دینے لگے اور ساتھ یہ دعا کی: اے اللہ ! یہ فلاں کی طرف سے ہے (یعنی اس کے پہلے مالک کی طرف سے) پھر اگر وہ (آنے کے بعد) اس صدقے سے انکار کرے گا تو (اس کا ثواب) مجھے ملے گا اور لونڈی کی قیمت ادا کرنا میرے ذمے واجب ہوگی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی طرح تم لقطہ کے ساتھ کیا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی یہی قول ہے۔ یزید مولیٰ منبعث بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گم شدہ بکری سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے پکڑ لو، کیونکہ یا تو وہ تمھاری ہوگی (ایک سال اعلان کر کے مالک نہ ملنے کی صورت میں ) یا تمھارے کسی بھائی کی ہوگی یا پھر بھیڑیے کی ہوگی (اگر یہ انہی جنگلوں میں پھرتی رہی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گم شدہ اونٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں رخسار سرخ ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمھیں اس سے کیا غرض؟ اس کے پاس (مضبوط) کھر ہیں (جس سے اسے چلنے میں دشواری نہ ہوگی) اور اس کے پاس مشکیزہ ہے، جس سے وہ پانی پیتا رہے گا اور درخت کے پتے کھاتا رہے گا، یہاں تک کہ اس کا مالک اسے پا لے گا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی رسی اور اس کے ظرف کو معلوم کر کے ایک سال تک اس کا اعلان کرو۔ پھر اگر کوئی شخص آجائے جو اسے پہچانتا ہو (تو اسے دے دو) ورنہ اسے اپنے مال کے ساتھ ملا لو]
حنفی مذہب میں یومِ ولادت سے ایک سو بیس یا ایک سو دس یا ایک سو پانچ یا جب اس کے اَقرآن و اَمثال میں سے کوئی باقی نہ رہے، یا نوے برس کے بعد علی اختلاف الروایات مردہ متصور ہوگا اور حنفیہ نے نوے برس والی روایت کو مفتی بہ اور مرجح ٹھہرایا ہے۔ و اللّٰه أعلم۔
2۔ اگر اس متوفی کے علاوہ مفقود کے دوسرے ورثہ نہ ہوں تو کل جائداد اور بصورت ہونے دوسرے ورثہ کے ان کو دے کر جو حصہ مفقود کا بچ رہے، اسی کے قبضے میں مفقود کی حاضری یا انقضائے مدت تک رہے گا، جس کے قبضے میں ہے، بشرطیکہ اس سے کوئی خیانت ظاہر نہ ہو، فقط۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: ابو الفیاض محمد عبد القادر، مدرس مدرسہ احمدیہ آرہ۔ (۸؍ ستمبر ۹۵ء)
اگر عورت کے دوسرے نکاح کے بعد مفقود الخبر شوہر واپس آ جائے؟
سوال: جو شخص مفقود الخبر ہو اور بعد انقضائے مدت کے جو شرع شریف سے ثابت ہے، اس کی بی بی نے نکاح کر لیا اور شوہرِ ثانی سے لڑکے بھی پیدا ہوئے اور اب اس کا شوہرِ اول باہر سے آیا تو وہ اپنی بی بی کو پا سکے گا، مع لڑکے کے یا صرف بی بی کو پائے گا یا کسی کو نہیں ؟
جواب: اس صورت میں شوہر کو اختیار ہے، چاہے بی بی لے لے یا جو مہر بی بی کو دے چکا ہے، وہ مہر واپس کر لے اور
|