ففیہ نکارۃ فإن في حفظہ شیئا، وقد احتج بہ أئمۃ، ف اللّٰه أعلم، وقد استشھد مسلم بخمسۃ أحادیث لابن إسحاق ذکرھا في صحیحہ"[1]اھ۔
[پس مجھے جو بات سمجھ میں آئی ہے، وہ یہ کہ بلاشبہ ابن اسحاق حسن الحدیث، صالح الحال اور صدوق ہے، جس روایت میں وہ منفرد ہو، اس میں نکارت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے حافظے میں کچھ کمی ہے، ائمہ نے اس سے احتجاج کیا ہے۔ و اللّٰه أعلم۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے پانچ احادیث سے استشہاد کرتے ہوئے اپنی صحیح میں ان کو درج کیا ہے]
مولوی عبدالحی صاحب مرحوم نے "إمام الکلام" میں صفحہ (۱۹۲) سے (۲۰۱) تک علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی کتاب کاشف اور حافظ ابن سید الناس کی کتاب "عیون الأثر" اور حافظ منذری کی کتاب "الترغیب والترہیب"سے محمد بن اسحاق کا مفصل اور مبسوط ترجمہ نقل کیا ہے، جس میں تمام جروح کے اجوبہ شافیہ مذکور ہیں ۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے ’’فتح القدیر‘‘ میں متعدد مواضع میں محمد بن اسحاق کی توثیق ثابت کی ہے۔[2] و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه
آمین بالجہر کی شرعی حیثیت:
سوال: آمین بالجہر کہنا کیسا ہے اور بالجہر کہنے سے سامعین کی نماز میں نقصان آتا ہے یا نہیں ؟
جواب: جہری نماز میں سورت فاتحہ کے اختتام پر آمین بالجہر کہنا احادیثِ شریفہ سے ثابت ہے۔ حدیث کی معتبر کتابوں میں یہ احادیث درج ہیں ، اس وقت صرف ایک دو حدیث ترمذی شریف سے لکھی جاتی ہے، اگر اور ضرورت ہو تو مطلع فرمائیے۔ ترمذی شریف (۱/ ۳۴ چھاپہ دہلی) میں ہے:
"حدثنا بندار نا یحییٰ بن سعید و عبد الرحمن بن مھدي قالا: نا سفیان عن سلمۃ بن کھیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر قال: سمعت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین، وقال: آمین، ومد بھا صوتہ۔
قال أبو عیسیٰ: حدیث وائل بن حجر حدیث حسن، وبہ یقول غیر واحد من أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم والتابعین ومن بعدھم، یرون أن یرفع الرجل صوتہ بالتأمین ولا یخفیھا، وبہ یقول الشافعي و أحمد و إسحاق، قال أبو عیسیٰ: وسألت أبا زرعۃ عن ھذا الحدیث، فقال: حدیث سفیان في ھذا أصح، قال: روی العلاء بن صالح الأسدي عن سلمۃ بن کھیل نحو روایۃ سفیان۔
|