اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا﴾ [البقرۃ: ۲۲۱]
[اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور یقینا ایک مومن لونڈی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ تمھیں اچھی لگے اور نہ (اپنی عورتیں ) مشرک مردوں کے نکاح میں دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ]
وقال تعالیٰ:﴿وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ﴾ [المائدۃ: ۵] و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۱؍ ربیع الأول ۱۳۳۲ھ)
شیعہ مرد و عورت سے نکاح کرنے اور وراثت کا حکم:
سوال: عورت سنت و جماعت کا نکاح مرد شیعہ مذہب کے ساتھ اور مرد سنت و جماعت کا نکاح عورت شیعہ کے ساتھ ازروئے شرع شریف و قرآن و حدیث جائز ہے یا نہیں اور اگر جائز ہے تو ان میں توریث جاری ہوگی یا نہیں ؟
جواب: نکاح بھی جائز ہے اور توریث بھی جاری ہوگی، اس لیے کہ ان میں جو اختلاف ہے، وہ کتاب و سنت کی تاویل کا اختلاف ہے اور یہ اختلاف موجب اختلافِ ملت نہیں ہے، ہاں نکاح مذکور خلافِ اولیٰ ہے، لیکن جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو، اس سے بوجہ اختلافِ ملت نہ مناکحت جائز ہے نہ توریث جاری ہوگی۔
در مختار کی فصل ’’محرمات‘‘ میں ہے:
’’تجوز مناکحۃ المعتزلۃ لأنا لا نکفر أحدا من أھل القبلۃ وإن وقع إلزاما في المباحث‘‘[1]
[معتزلہ سے نکاح جائز ہے، کیونکہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے، اگرچہ مباحث میں الزام واقع ہے]
’’فرائض شریفی‘‘ (ص: ۱۸ مطبوعہ مصطفائی) میں ہے:
’’بخلاف أھل الأھواء فإنھم معترفون بالأنبیاء والکتب، ویختلفون في تأویل الکتاب والسنۃ، وذلک لا یوجب اختلاف الملۃ‘‘ انتھی
[اہلِ اہوا کے برخلاف، کیوں کہ وہ انبیا اور کتابوں کے معترف ہیں اور کتاب و سنت کی تاویل میں اختلاف کرتے ہیں ، مگر یہ چیز اختلافِ ملت کو واجب نہیں کرتی]
|