کتاب الطلاق والخلع
مسنون طلاق اور رجوع کا طریقہ:
سوال: زید نے لفظِ طلاق کہہ کر اپنی بی بی کو اپنے ایک دوسرے عزیز کے، جو اس کا خالہ زاد بھائی ہے، حوالے کر دیا اور بعد عرصہ دو ماہ کے عدت کے اندر اندر اس نئے شوہر مجوزہ کا انتقال ہوگیا اور وہ عورت پھر اپنے شوہر اول کے پاس آگئی، اب زید از سر نو نکاح بغیر حلالہ کرے یا بعد حلالہ یا نکاح کی ضرورت نہیں ہے؟ بعض لوگوں نے لفظِ طلاق سے تیً طلاق مراد لے کر کہا ہے کہ تین طلاق سے منشا قرآن شریف پورا ہوجاتا ہے۔ سائل: حاجی محمد یعقوب۔ مقام انبالہ
جواب: منشا قرآن شریف اور حدیث شریف کا دربارہ طلاق یہ ہے کہ اگر ضرورت طلاق کی ہو تو صرف ایک طلاق دے دے، پھر اگر رجعت کرنا چاہے، یعنی طلاق جو اس کو دے چکا ہے، واپس لے لینا چاہے تو عدت کے اندر واپس لے سکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین بغیر حلالہ کے پھر سے نکاح کر سکتا ہے۔ اگر بعد رجعت یا بعد نکاحِ جدید پھر کبھی ضرورت طلاق کی پیش آئے تو پھر صرف ایک طلاق دے دے۔ یہ دوسری طلاق ہوگی۔ یہ اور اول مل کر دو طلاقیں ہو جائیں گی، اس دوسری طلاق کے بعد بھی عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے اور عدت گزر چکی ہو تو بتراضی طرفین بغیر حلالہ کے جدید نکاح کر سکتا ہے۔ اس رجعت یا نکاح جدید کے بعد بھی اگر پھر کبھی ضرورت طلاق کی ہو تو اب بھی صرف ایک طلاق دے دے، یہ تیسری طلاق ہو گی اور اب یہ اور اوپر والی دو طلاقیں مل کر تین طلاقیں ہوجائیں گی، تین طلاقیں اس طریق سے دی جا سکتی ہیں ۔
اب اس تیسری طلاق کے بعد نہ عدت کے اندر رجعت کر سکتا ہے اور نہ عدت گزر جانے پر بغیر حلالہ کے پھر سے نکاح کر سکتا ہے اور طریقہ مذکورہ کے بر خلاف دو یا تین طلاقیں دے دینا (مثلاً) دو یا تین طلاقیں ایک ہی جلسہ میں دے دینا منع ہے اور اگر کوئی اس ناجائز طریقے سے دو یا تین طلاقیں دے دے تو اس سے صرف ایک ہی طلاق پڑے گی۔ دو یا تین طلاقیں نہیں پڑیں گی۔
صورتِ طلاق جو سوال میں مذکور ہے، اگر اس میں اس شخص نے برخلاف طریقہ مذکورہ بالا تین طلاقیں دے دی ہیں ، مثلاً: ایک ہی جلسہ میں تین طلاقیں دے دی ہیں تو اس صورت میں صرف ایک طلاق پڑے گی۔ اگر عدت نہیں گزری ہے تو رجعت وہ شخص کر سکتا ہے، اگر اس کے قبل اور دو طلاقیں نہیں دے چکا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے اور اس کے قبل دو طلاقیں نہیں دے چکا ہے، تو بغیر حلالہ کے پھر سے نکاح کر سکتا ہے بتراضی طرفین اور اس صورت
|