جواب: اس صورت میں زید کا نکاح صحیح ہوا۔ اگر خالد کی زوجہ کا یہ خیال صحیح ثابت ہو کہ اس نے زید کو اس کی ولادت کے ہر دو برس کے بعد دودھ پلایا ہے، اس لیے کہ رضاع کی مدت صرف دو برس ہے۔ دو برس کے اندر دودھ پلانے سے دودھ کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے، بعد میں نہیں ۔ لقولہ تعالیٰ:﴿حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ﴾ (البقرۃ: ۲۳۳) [اس کے لیے جو چاہے کہ دودھ کی مدت پوری کرے] وقولہ تعالیٰ:﴿وَ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ﴾ (لقمان: ۱۴) [اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے] پس جب خالد کی زوجہ نے زید کو دو برس کے بعد دودھ پلایا تو نہ وہ اس سے زید کی رضاعی ماں ہوئی اور نہ خالد زید کا باپ ہوا اور نہ زینب زید کی رضاعی پھوپھی ہوئی، لہٰذا اس صورت میں یہ نکاح صحیح ہوا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۵؍ محرم ۱۳۳۵ھ)
رضاعی بھانجی سے نکاح کا حکم:
سوال: زید نے اپنی دادی ہندہ کا دودھ پیا ہے، پس زید کا نکاح ہندہ کی نتنی [نواسی] سے ہوسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: نہیں ، کیونکہ ہندہ کی نتنی زید کی رضاعی بھانجی ہے اور نسبی بھانجی حرام ہے:
﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ﴾ [سورۂ نساء، رکوع: ۴ پارہ چہارم]
[حرام کی گئیں تم پر تمھاری مائیں اور تمھاری بیٹیاں اور تمھاری بہنیں اور تمھاری پھوپھیاں اور تمھاری خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں ]
جو لوگ نسب سے حرام ہیں ، رضاعت سے بھی حرام ہیں ۔ صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
(( إن اللّٰه حرم من الرضاعۃ ما حرم من النسب )) [1] (مشکوۃ شریف، ص: ۲۶۵ مطبوعہ انصاري)
کتبہ: محمد عبد الرحمن، عفی عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
رضاعی بھائی کی نسبی بہن سے نکاح کرنے کا حکم:
سوال: زید کی کئی لڑکیاں ہیں اور ایک لڑکا۔ صرف اس لڑکے نے اپنے ماموں بکر کی بیوی کا دودھ پیا ہے اور بکر کی اس بیوی سے کئی لڑکے ہیں تو اس صورت میں بکر کے پسر کی شادی زید کی دختر سے ہوسکتی ہے یا نہیں ؟
جواب: اس صورت میں بکر کے پسر کی شادی زید کی دختر سے ہو سکتی ہے، اس لیے کہ جب زید کی لڑکیوں نے بکر کی بیوی کا دودھ نہیں پیا ہے تو نہ بکر کی بیوی زید کی لڑکیوں کی ماں ہوئی اور نہ بکر کے لڑکے زید کی لڑکیوں کے بھائی ہوئے اور جب بکر کے لڑکے اور زید کی لڑکیوں میں رشتہ رضاعت متحقق نہیں ہوا تو بکر کے پسر کی شادی زید کی دختر سے ہو سکنے میں کسی طرح شبہہ نہیں ہے۔ و اللّٰه تعالی أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۱۴؍ ذي القعدۃ ۱۳۳۰ھ)
|