کتاب العلم
غیر اللہ کی تعظیم اور حاجت روائی کا نظریہ:
سوال:کسی مسلمان کو بلا حکمِ شرع مسجد میں نماز پڑھنے سے روکنا کیسا ہے اور مسجد کے کنویں سے باوجود غیر قوم کے پانی بھرنے کے کسی مسلمان کو پانی نہ لینے دینا کیسا ہے؟ بعد نمازِ صبح کے مسجد کے منبر کے دائیں طرف منہ کر کے کھڑے ہونا اور کچھ دیر کے بعد رکوع کے مانند جھک کر تعظیم کرنا اور یہ سمجھنا کہ یہ تعظیم سید عبدالقادر رحمہ اللہ کی کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھنا اور کہنا کہ پیرانِ پیر جس کو جو چاہیں دے سکتے ہیں ، کیسا ہے؟ ایسے شخص کے پیچھے جس میں یہ سب باتیں بھری ہوں ، نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟ ان کے ساتھ میل ملاپ رکھنا اور ان کی دعوت قبول کرنا چاہیے یا نہیں ؟
جواب: کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ دوسرے نمازی کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکے۔ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ﴾[البقرۃ: ۱۱۴]
[اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو الله کی مسجدوں سے منع کرے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے]
مسجد سے روکنا بڑا ظلم ہے اور ظلم کو جو باوجود قدرت کے نہ روکے، وہ مثل ظالم کے ہے اور ظلم کی درپردہ اعانت کرنا بھی ظلم ہے اور فسق۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر ان کی تعظیم کے لیے رکوع کی طرح جھکنا سخت بدعت ہے اور یہ سمجھنا کہ بڑے پیر رحمہ اللہ جس کو جو چاہیں دے سکتے ہیں ، محض غلط اور بڑے گناہ کی بات ہے، چونکہ ایسا شخص کلمۂ توحید اور رسالت کا بلا اکراہ دل سے مقر ہے، اس لیے ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔ حدیث میں ہے: (( صلوا خلف کل بر وفاجر )) [1] ’’برے بھلے سب کے پیچھے نماز پڑھو۔‘‘
فاسقوں سے نہ ملنا، اگر اپنے بچانے کو ہے یا اس نظر سے کہ نہ ملنے سے گمان ترک فسق کا ہے تو واجب ہے۔ فاسق کی دعوت میں اگر کوئی فسق کی چیز شامل ہے تو دعوت نہ قبول کرنی چاہیے۔
کتبہ: محمد عین الحق۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
|