ایک بیٹا، ایک بیٹی، ایک پوتا اور ایک بہو:
سوال: زید نے اپنی جائداد میں سے بوقت حیات ایک مکان بڑے بیٹے کو اور ایک مکان چھوٹے بیٹے کو دیا، لیکن یہ ظاہر نہیں کیا کہ یہ مکان براے سکونت دیا یا ملکیت میں ، اور دختر کو کہا کہ ہم تم کو دوسرا مکان خرید کر دیں گے۔ بعد چند زمانہ کے زید نے انتقال کیا اور نیز بعد زید زوجہ زید نے بھی انتقال کیا، بعد انتقال زید و زوجہ زید دونوں لڑکوں نے بقیہ جائداد میں سے تقریباً دو سو روپیہ کا زیور و کپڑا و برتن مسی اپنی ہمشیرہ کو دیا، بعدہ دونوں لڑکوں میں سے چھوٹے لڑکے نے انتقال کیا اور اس نے اپنی ایک بیوی اور ایک دختر چھوڑا۔ اب بضرورت سرکار گورنمنٹ دونوں مکان سڑک میں آگئے ہیں ، لہٰذا اس کا روپیہ بموجب شرع شریف کس طرح تقسیم ہونا چاہیے۔ ورثاء میں سے چار اشخاص ہیں ، یعنی زید کا ایک لڑکا اور ایک دختر اور دوسرے لڑکے مرحوم کی ایک بیوی اور ایک دختر۔
جواب: ہر دو مکان کا روپیہ بہ تفریق ذیل تقسیم ہوگا۔ زید کا تمام ترکہ بطریق اختصار پانچ سہام پر تقسیم ہوگا، دو دو سہام ایک ایک لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو۔ ازاں بعد جو لڑکا مر گیا ہے، اس کے مال کے آٹھ سہام کے ایک حصہ بیوی کو اور چار دختر کو اور دو بھائی کو جو زید کا بیٹا ہے، دیے جائیں اور ایک بہن کو۔ عرف میں جب مکان وغیرہ کسی کو دیا جاتا ہے تو تملیک مراد نہیں ہوتی، لہٰذا تمام ترکہ زید مع ہر دو مکان مذکورۃ الصدر ترکہ زید مالک بطریق مذکورہ تقسیم ہوں گے۔
ہکذا في کتب الفقہ والفرائض۔ عبد الکریم علوی فقیہ اول دار العلوم۔ الجواب صحیح۔ محمد عبد اللّٰه (۱۴؍ربیع الآخر ۱۳۳۱ھ)
زید کے موجودہ ورثاء چار شخص ہیں ، ایک لڑکا اور ایک لڑکی اور ایک پوتی اور ایک بہو۔ پس زید کے متروکہ مال میں سے نصف، یعنی آدھا اس کے لڑکے کو ملے گا اور ربع، یعنی چوتھائی اس کی لڑکی کو اور بقیہ ربع کے پانچ حصے کر کے ان میں سے چار حصے اس کی پوتی کو ملیں گے اور ایک حصہ بہو کو، یعنی بیس روپیہ میں سے دس روپیہ زید کے لڑکے کو ملیں گے اور پانچ روپیہ اس کی لڑکی کو اور چار روپیہ اس کی پوتی کو اور ایک روپیہ اس کی بہو کو ملے گا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: ابو یوسف محمد عبد المنان غازیپوری۔ مدرس مدرسہ ریاض العلوم، شہر دھلے۔
بے اولاد بیوی سے باپ اور خاوند کا حصہ:
سوال: زید کی اہلیہ نے بقضائے الٰہی زید کی زندگی میں وفات پائی، مرحومہ کی کوئی اولاد نہیں ، نہ ہی اُس کے بھائی بہن ہیں ، مگر اس کا والد زندہ ہے اور خاوند سے شرعی حصہ مانگتا ہے۔ مرحومہ کی کوئی جائداد نہیں ہے، صرف زیور اور پارچہ جات ہیں ۔ زیور کا کچھ حصہ مرحومہ کو اس کے والد نے دیا تھا اور کچھ حصہ اس کے خاوند نے بعد نکاح وقتاً فوقتاً بنوا کر دیا۔ مرحومہ نے اپنے خاوند کو یہ وصیت بھی کی ہے کہ اس کے زیور میں سے حج بدل کرایا جائے۔ مرحومہ کا خاوند زید اب یہ کہتا ہے کہ جو زیور اس نے (زید نے) مرحومہ کو وقتاً فوقتاً بنوا کر دیا تھا، وہ اس نے اپنی زوجہ کی ملکیت میں نہیں کیا تھا،
|