اعتبار سے دونوں کے باب کا مسدود ہونا لازم آتا ہے اور نہ ایک کا اعتبار دوسرے کے اعتبار سے مغنی ہے اور چونکہ کسی کتاب میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ہر جد کے لیے عم کا ہونا ضرور ہے، لہٰذا یہ شبہہ بھی ’’کہ اگر سلسلہ عم الجد محدود نہیں تو عم حضرت آدم علیہ السلام کا لازم آتا ہے۔ وارد نہ ہوگا۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه
شوہر، بیٹی اور باپ:
سوال: زید نے اپنی حیات میں کل جائداد منقولہ و غیر منقولہ مع حق پدری مسماۃ حامدہ اپنی دختر کو دے کر بجائے اپنے اپنی لڑکی مذکورہ کو مالک کامل کل جائداد کا بہ اختیار مالکانہ کرا دیا، لیکن بتقدیرِ الٰہی مسماۃ حامدہ مذکورہ نے بحالت حیاتِ زید کے وفات پایا اور چھوڑا اس نے باپ، شوہر، دختر، اور بعد وفات کے باپ مذکور نے یہ کہا کہ اب بجائے دختر کے ہماری نواسی ہماری کل جائداد کی وارث و مالک ہے، مزید برآں انتظام بھی آج تک ویسا ہی چلا آتا ہے، جیسا کہ دختر (حامدہ) کی حیات میں تھا، پس جائداد مذکور الصدر کا شرعی وارث کون کون ہوگا اور ہر ایک وارث کا کس قدر حصہ ہوگا؟ بیان فرمائیے مطابق کتاب الله و کتاب رسول الله کے۔
جواب: ترکہ مسماۃ حامدہ کا حسبِ فرمانِ الٰہی بارہ سہام پر منقسم ہوگا، جس میں سے نصف اعنی چھ سہام اُس کی بیٹی کو ملیں گے۔
کما قال اللّٰه تعالیٰ:﴿وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ﴾ [النساء: ۱۱]
[اور اگر ایک عورت ہو تو اس کے لیے نصف ہے]
اور رُبع اعنی تین سہام شوہر کو، جیسا کہ الله سبحانہ نے فرمایا ہے:
﴿ فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ﴾ [النساء: ۱۲]
[پھر اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو تمھارے لیے اس میں سے چوتھا حصہ ہے، جو انھوں نے چھوڑا]
بقیہ تین سہام باپ کو سدس من حیث فرضیت کے، جیسا کہ کلامِ خداے علام میں وارد ہے:
﴿وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ﴾ [النساء: ۱۱]
[اور اس کے ماں باپ کے لیے، ان میں سے ہر ایک کے لیے اس کا چھٹا حصہ ہے، جو اس نے چھوڑا، اگر اس کی کوئی اولاد ہو]
اور ایک باعتبار عصوبت کے:
(( قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : ألحقوا الفرائض بأھلھا، فما بقي فھو لأولیٰ رجل ذکر )) [1] (رواہ البخاري)
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مقررہ حصے ان کے مستحقین کو دو اور جو باقی بچے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتے دار) کا حصہ ہے]
اس موقع میں باپ ہی کا حسبِ ہبہ اس کے اس کی نواسی اعنی حامدہ کی بیٹی کو ملے گا تو اب میت کی بیٹی کو نو
|