وفي الترغیب والترھیب للحافظ المنذري رحمہ اللہ: ’’وقد جاء في غیر ما حدیث عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم النھي عن بیع جلد الأضحیۃ‘‘[1]انتھی۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[حافظ منذری رحمہ اللہ کی ترغیب و ترہیب میں ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی ایک احادیث میں قربانیوں کی کھالیں بیچنے سے ممانعت وارد ہوئی ہے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۴؍ذیقعدہ ۱۳۲۷ھ) الجواب صحیح۔ کتبہ: أبو یوسف محمد عبدالمنان۔
سوال: قربانی کی کھال سے مسجد کی مرمت کرنا چاہیے یا نہیں ؟
جواب: قربانی کی کھال مسجد میں صَرف کرنا خود قربانی کرنے والے کو جائز نہیں ہے۔ ہاں کسی شخص کو دے کر اس کو اس کھال کا مالک بنا دے اور وہ اپنی خوشی سے اس کو بیچ کر اس کی قیمت سے مسجد کی مرمت کرے تو کر سکتا ہے۔
زیلعی (ص: ۳۷۹) میں ہے:
’’روی الحاکم في المستدرک عن أبي ھریرۃ قال علیہ السلام : (( من باع جلد أضحیتہ فلا أضحیۃ لہ )) وقال: حدیث صحیح الإسناد، ولم یخرجاہ، ورواہ البیھقي في سننہ‘‘[2] اھ
[امام احاکم رحمہ اللہ نے ’’مستدرک‘‘ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی قربانی کی کھال فروخت کرے گا، اس کی قربانی (قبول) نہیں ہوگی۔‘‘ امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، اور بخاری و مسلم نے اسے روایت نہیں کیا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنی سنن میں روایت کیا ہے]
وقال الحافظ عبد العظیم المنذري في کتاب الترغیب والترھیب: وقد جاء في غیر ما حدیث عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم النھي عن بیع جلد الأضحیۃ‘‘[3] اھ و اللّٰه أعلم
[حافظ عبد العظیم المنذری رحمہ اللہ نے کتاب ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں کہا ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کئی ایک احادیث میں قربانی کی کھال فروخت کرنے سے منع فرمایا گیا ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۴؍ذیقعدہ ۱۳۳۰ھ)
قربانی کی کھال قصاب کو دینے کا حکم:
سوال: قصاب سے اور قربانی کرنے والے شخص سے معاہدہ ہے کہ کھال کا نرخ گو کتنا ہی ہو، لیکن قصاب کو ایک نرخ معین پر دی جائے گی اور اس میں قصاب کی رعایت بھی ملحوظ ہے، یعنی قیمت کم معین کی گئی تو جائز ہے یا نہیں اور قربانی
|