ولایتِ نکاح کا حق دار اور ولی کے بغیر نکاح کا حکم[1]:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کی بیٹی ہندہ عرصہ نو برس سے عدمِ بلوغیت کے زمانے میں بیوہ ہوگئی، اس درمیان میں چند جگہ سے پیغام نکاح بھی ہندہ کے آئے، مگر زید نے بوجہ پابندی رسم و عیب و برا سمجھنے کے نامنظور کیا۔ آخر ہندہ زید کے مکان سے باہر آئی اور جماعت مسلمین کے سردار کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرا نکاح فلاں شخص سے جلد پڑھا دیجیے، ورنہ حرام کاری کی مرتکب ہوجاؤں گی اور میرے والد کو مت خبر دیجیے، ورنہ وہ نکاح نہ ہونے دیں گے، سردار صاحب کو بہت خیال ہوا اور دریافت کر کے ایک جماعت مسلمین کے روبرو خود قاضی و وکیل و ولی بن کر ہندہ کا نکاح پڑھوا دیا، جب اس کے والد وغیرہ کو خبر ہوئی تو اس کو زد و کوب کر کے پکڑ کر مکان میں لے گئے اور یہ مشہور کیا کہ ہندہ کہتی ہے کہ وہ نکاح میری منظوری سے نہیں ہوا اور ہم کو منظور نہ تھا۔ یہ کہنا زید کا یا ہندہ کا معتبر ہے یا نہیں اور یہ نکاح بیوہ کا جو ولی اقرب کے ہوتے ہوئے، ولی ابعد سردار مسلمین نے پڑھوایا صحیح ہے یا نہیں ؟
جواب: عورت کے نکاح میں عورت کا اذن بھی ضروری ہے اور اس کے ولی کا اذن بھی۔ اگر عورت ثیبہ ہے تو اس کا صریح اذن ضروری ہے اور باکرہ ہے تو صریح اذن ضرور نہیں ، اس کا سکوت بھی کافی ہے تو اگر عورت کا نکاح بلا اذن اس کے کر دیا جائے تو صحیح نہیں ، جب تک کہ وہ منظور نہ کرے، اسی طرح اگر عورت کا نکاح بلا اذن اس کے ولی کے کر دیا جائے تو بھی صحیح نہیں ، جب تک ولی منظور نہ کرے، ہاں جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو، یا ہو، لیکن عورت کو نکاح کرنے سے روکتا ہو، جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو ان دونوں صورتوں میں سلطان، یعنی سردار جماعت مسلمین ہی اس عورت کا ولی ہے، اس کے اذن سے اس عورت کا نکاح صحیح ہے۔ في المشکاۃ (ص: ۲۶۲):
1۔ عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : لا تنکح الأیم حتی تستأمر ولا تنکح البکر حتی تستأذن، قالوا: یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ! وکیف إذنھا؟ قال: أن تسکت‘‘[2] متفق علیہ
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ یا مطلقہ کا نکاح اس کے حکم کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری سے بھی اجازت لی جائے۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: اس کی اجازت کس طرح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کہ خاموش ہو جائے‘‘]
2۔ وعن عائشۃ أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل (إلی قولہ) فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي لہ۔ رواہ أحمد والترمذي وأبو داود و ابن ماجہ والدارمي‘‘[3] اھ
|