کتاب العلم
سورۃ النساء کی آیت ﴿اَوْ نِسَآئِھِنَّ﴾ سے کیا مراد ہے؟
سوال: سورت نساء میں در باب پردہ ﴿اَوْ نِسَآئِھِنَّ﴾ کا لفظ جو وارد ہے، اس سے کیا مراد ہے؟
جواب: سورہ نور رکوع (۴) اور سورہ احزاب رکوع (۷) میں جو ﴿نِسَآئِھِنَّ﴾ کا لفظ وارد ہے، اس سے مسلمان عورتیں مراد ہیں ، یعنی مسلمان عورتیں اپنے پوشیدہ سنگار مسلمان عورتوں کو دکھائیں ، نہ کہ کافر عورتوں کو، اسی طرح رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات کو مسلمان عورتوں کے سامنے آنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔
آیتِ کریمہ ﴿وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ﴾ کا صحیح معنی کیا ہے؟
سوال: آیتِ کریمہ﴿وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ﴾ [تواسے پایا کہ وہ دلدل والے چشمے میں غروب ہو رہا ہے] کا صحیح معنی اور تفسیر کیا ہے؟ مخالفینِ اسلام کا عقلاً جو اس پر اعتراض ہوتا ہے، اس کا جواب کیونکر ہے؟
جواب: مخالفین جو اس آیت پر اعتراض کرتے ہیں ، وہ لفظ﴿وَجَدَھَا﴾ کا خیال نہیں کرتے۔ اگر﴿وَجَدَھَا﴾ کا لحاظ کر لیں تو کوئی اعتراض نہیں ۔ مخالفین کی یہی غلطی ہے۔ ایسا بہت ہوتا ہے کہ ایک چیز واقع میں کچھ ہوتی ہے اور کسی وجہ سے معلوم کچھ ہوتی ہے۔ پانی کے کنارے صبح یا شام کو کھڑے ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب پانی سے نکل رہا ہے یا پانی میں ڈوب رہا ہے، حالانکہ واقع میں ایسا نہیں ہے۔ اسی حالت کا بیان اس آیت میں ہے کہ آفتاب ذوالقرنین کو ایک چشمہ میں ڈوبتا ہوا معلوم ہوا، حالانکہ ایسا نہ تھا۔ الحاصل مخالفین کا جو اعتراض یہاں پر ہے، اس کا کافی جواب خود لفظ﴿وَجَدَھَا﴾ میں موجود ہے۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۸؍ محرم ۱۳۳۱ھ)
آیتِ کریمہ:﴿اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً﴾ کا مطلب:
سوال: آیتِ کریمہ﴿اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَا اِِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتامگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کر دیا گیا ہے] کا کیا مطلب ہے؟
جواب: آیتِ کریمہ﴿اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ﴾ کا صحیح مطلب وہی ہے جو کتاب ’’زاد المعاد‘‘ للحافظ ابن القیم جلد (۲) میں مذکور ہے، وہاں ملاحظہ ہو۔[1] جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زانی جب تک زنا سے تائب نہ ہو، اس کا نکاح کسی عورت کے
|