نیابتاً حکم مذکور کی تعمیل کر دی، یعنی جائداد مذکورہ بالا کو تقسیم کر کے ہر ایک موہوب لہ کو اس کے حصے کا مالک و قابض کر دیا اور ہر ایک موہوب لہ نے اس کی اس کارروائی کو بخوشی و رضا اپنی قبول و منظور کر لیا اور اس تاریخ سے ہر ایک موہوب لہ اپنی اپنی جائداد موہوبہ پر مالکانہ قابض ہو کر اس میں متصرف ہو گیا اور اب تک ہے تو اب تملیک کے پائے جانے میں کیا شک باقی رہا اور مسماۃ موصوفہ کا بڑے بیٹے سے یہ کہنا کہ کل جائداد کو ہماری تقسیم کر کے سب کو مالک و قابض کر دو، تاکہ بعد ممات ہماری تم لوگوں میں نزاع نہ رہے اور بڑے بیٹے کا حسب الحکم اپنی مادر موصوفہ کے بمشورہا جملہ برادران اپنے تحریر مذکور لکھنا، پھر ازروے قرعہ کے باخودہا میں تقسیم کرنا اور اس تقسیم کو ہر ایک کا بخوشی و رضا اپنی قبول کر کے العبد و دستخط اپنا اپنا اس تحریر پر کر دینا اور اسی تاریخ سے اپنی اپنی جائداد موہوبہ پر قابض و متصرف ہو جانا اور تاحیات مسماۃ موصوفہ کسی کا اس میں کچھ چوں و چرا نہ کرنا صاف طور سے بتا رہا ہے کہ مقصود مسماۃ موصوفہ اور مقصود منتظم اور ان کے سائر برادران کا ان جملہ کار روائیوں سے تملیک و تملک تھا، نہ اور کچھ۔ پس موافق مقصود جملہ کسان مذکورہ بالا کے یہ ہبہ و تقسیم بالیقین صحیح ہے۔ گنجایش شک و شبہہ کی اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
ہبہ بالعوض:
سوال: 1۔ ایک شخص نے مرض الموت میں اپنے وثیقہ ہبہ بالعوض اپنی بعض اولاد کے نام سے لکھا اور بعض اولاد کو بالکل محروم کیا۔ پس یہ ہبہ بالعوض بنام بعض اولاد کے صحیح ہوا یا نہیں ؟
2۔ اگر کسی شخص نے حالتِ مرض الموت میں بعض اولاد کو اپنی یا کسی غیر کو ہبہ بالعوض کیا تو یہ ہبہ اس واہب کے کل مال میں جاری ہوگا یا واہب کے ثلث مال سے؟ واہب نے اپنے کل مال کو بعض ورثا کو اپنے ہبہ کر دیا اور بعض کو بالکل محروم کیا ہے۔
3۔ ہبہ بالعوض میں قرآن مجید کا ہبہ کرنا صحیح ہوگا یا نہیں ؟
جواب ان تینوں سوالوں کا کتبِ فقہ حنفیہ سے بقید مطبع و صفحہ کتاب کے دیا جائے۔
جواب:1۔ اگر یہ ہبہ باجازت باقی ورثہ کے ہوا ہے تو صحیح ہوا، ورنہ صحیح نہیں ہوا، اس لیے کہ ہبہ بالعوض ایک فرد ہبہ ہے، جو مرض الموت میں واقع ہوا ہے اور ہبہ جو مرض الموت میں واقع ہو حکماً وصیت ہے، بس ہبہ مذکورہ حکماً وصیت ہے اور وصیت وارث کے لیے بلا اجازتِ ورثہ صحیح نہیں ہے اور اولاد وارث ہے، پس ہبہ مذکور بغیر اجازت باقی اولاد کے (اور اگر واہب کا کوئی اور بھی وارث ہو تو بغیر اجازت اُس وارث کے بھی) صحیح نہیں ہے۔ فتاویٰ قاضی خاں (۴/ ۵۰۶ مطبوعہ کلکتہ) میں ہے: ’’لا یجوز الوصیۃ للوارث عندنا إلا أن یجیزھا الورثۃ‘‘
’’لو وھب شیئاً لوارثہ في مرضہ أو أوصیٰ لہ بشيء و أمر بتنفیذہ، قال الشیخ الإمام أبو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللّٰه : کلاھما باطلان، فإن أجاز بقیۃ الورثۃ ما فعل، وقالوا:
|