خواہ یہ کہے کہ مثلاً: دو برس یا چار برس کے لیے دیا یا نہ کہے، صرف اس قدر شرط ہو کہ اس قدر فلاں غلہ ہر سال میں لیا کریں گے، یہ صورت شرعاً درست ہے۔
صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ’’عامل النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم خیبر بشطر ما یخرج منھا من ثمر أو زرع‘‘[1] [نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں سے پھلوں اور غلے کی نصف پیداوار کے عوض (کاشت کاری کا) معاہدہ فرمایا] جب زمین بونے یا باغ لگانے کے لیے جزوِ پیداوار پر دینا اس حدیث سے جائز ثابت ہوا، حالانکہ جزوِ پیداوار کی مقدار معین نہیں تو در صورتِ تعیینِ مقدار کے بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔
کاروبار میں شراکت اور اس کی اقسام:
سوال: زید متوفی کا پسر کلاں مالِ تجارت نفع و نقصان میں نصف کا شریک ہے اور شروع میں اصل مال تخمینا پانسو روپیہ کا تھا اور یہ مال مذکور بھی بطورِ قرض دونوں کے نام ذمہ تھا۔ بفضلہ تعالیٰ اس مال مذکور سے بکوشش پسر کلاں اس قدر ترقی ہوئی کہ ہزاروں تک نوبت پہنچی، کیونکہ باپ عرصہ دراز سے بے تعلق رہا کرتا تھا اور پسر کلاں کے بھروسے پر کاروبارِ تجارت چھوڑ رکھا تھا اور بعد ہونے ترقی اموال وہ قرض بھی ادا کیا گیا اور جائداد بھی دونوں کے نام سے خریدی گئی اور لایسنس بھی دونوں کے نام سے ہوا۔ کاغذات بھی دونوں کے نام سے موجود ہیں ۔ سرکار میں دونوں کے نام موجود ہیں ۔ ایک بار کسی غفلت سے دوبارہ لایسنس جرمانہ ہوا تو دونوں پر علیحدہ علیحدہ ہوا اور کاروبارِ تجارت دونوں کے نام سے جاری ہیں اور جہاں کہیں مال جاتا ہے یا کہیں سے آتا ہے تو دونوں کے نام سے جمع خرچ ہوتا ہے۔
اگر خدانخواستہ اس وقت کچھ قرض ہوتا تو پسر کلاں کی گردن پھنستی، کیونکہ کاروبار عرصہ دراز سے پسر کلاں کر رہا ہے اور خط کتابت حساب کتاب وغیرہ سب پسر کلاں اپنے آپ خود کرتا ہے اور زید متوفی اپنی حیات میں بخیال اس کے کہ پسر کلاں میرا شریک ہے، جو اشیاء متعلق حوائجِ اکل و شرب وغیرہ دکان سے جاتی تھی، نصف اپنے یہاں رکھتا تھا اور نصف پسر کلاں کو دیتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا اتفاق بھی ہوا کہ مصارف روز مرہ کے واسطے تنخواہ مقرر ہوئی، وہ بھی نصفا نصف، یعنی ۲۲ روپے ماہ وار اپنی اور ۲۲ روپے ماہ وار پسر کلاں کی آمدنی دکان سے مقرر ہوئی۔ اب پسر کلاں مدعی ہے کہ نصف مال جائداد میرا ہے، لہٰذا علمائے دین سے سوال ہے، آیا پسر کلاں کا دعوی درست ہے؟
جواب: صورت مسؤلہ میں پسر کلاں کا دعویٰ کہ نصف مال جائداد میرا ہے، درست ہے، اس لیے کہ یہ شرکت جو مابین باپ بیٹے کے تھی، ابتدائً تو شرکتِ ملک تھی، کیونکہ اس اصل مال کے دونوں مالک تھے، جس کو دونوں نے بطور قرض کے حاصل کیا تھا، چنانچہ در مختار مع رد المحتار (۳/ ۳۳۳ چھاپہ دہلی) میں ہے:
’’شرکۃ ملک، وھي أن یملک متعدد اثنان فأکثر عینا (إلی قولہ) بإرث أو بیع أو غیرھما بأي سبب کان۔۔۔ الخ‘‘
|