اور اگر وہ الله اور نبی پر اور اس پر ایمان رکھتے ہوتے، جو اس کی طرف نازل کیا گیا ہے تو انھیں دوست نہ بناتے اور لیکن ان میں سے بہت سے نافرمان ہیں ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! الله کی قسم! تمھیں بالضرور نیکی کا حکم کرنا ہوگا، برائی سے روکنا ہوگا، ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہو گا اور اسے حق پر لوٹانا اور حق کا پابند کرنا ہوگا یا پھر ضرور الله تعالیٰ تمھارے دلوں کو ایک دوسرے پر دے مارے گا، پھر تم پر ویسے ہی لعنت کرے گا، جس طرح اس نے ان پر لعنت کی]
اس حدیث کو ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا اور یہ لفظ ابو داود کا ہے اور لفظ ترمذی کے یہ ہیں :
’’قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لما وقعت بنو إسرائیل في المعاصي نھتھم علماؤھم فلم ینتھوا فجالسوھم في مجالسھم وآکلوھم وشاربوھم فضرب اللّٰه قلوبھم بعضھم ببعض، ولعنھم علی لسان داود وعیسیٰ ابن مریم ذلک بما عصوا وکانوا یعتدون )) فجلس رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم وکان متکئاً فقال: (( لا والذي نفسي بیدہ حتی تأطروھم علی الحق أطراً )) [1]انتھی۔ و اللّٰه أعلم بالصواب
[رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بنو اسرائیل نافرمانیوں میں مبتلا ہوئے تو ان کو ان کے علما نے منع کیا، مگر وہ باز نہ آئے تو پھر وہ (علما) خود بھی ان کے ہم مجلس، ہم نوالہ اور ہم پیالہ بن گئے۔ پھر الله تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے کے اوپر دے مارا اور داود علیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم[ کی زبان پر لعنت کی، اس وجہ سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے وقت تک ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: نہیں ، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (تم بھی ان کی طرح ہونے سے نہیں بچ سکو گے) حتی کہ تم ان کو حق پر لوٹاؤ اور ان کو اس کا پابند کرو]
حررہ الراجي إلی رحمۃ ربہ الغني أبو المکارم محمد علی صانہ اللّٰه عن شر کل غبي وغوي۔
ابو المکارم محمد علی (۱۲۹۹ھ) ز شرف سید کونین شد شریف حسین (۱۲۹۳ھ)
خادمِ شریعتِ رسول الثقلین محمد حسین (۱۲۹۲ھ) محمد نذیر حسین (۱۲۸۱ھ)
محمد بن محمد عبد الله (۱۲۹۸ھ) محمد عبد الله (۱۲۹۱ھ) محمد عبد الحمید (۱۲۹۲ھ)
سید احمد حسن (۱۲۸۹ھ) المعتصم بحبل الله الاحد ابو البرکات حافظ محمد (۱۲۹۲ھ)
شیعہ کی دعوت قبول کرنا:
سوال: طعامِ دعوت یا عام پختہ کیا ہوا کھانا فریقِ شیعہ کا فرقہ اہلِ حدیث یا اہلِ سنت کو جائز ہے اور ایسا طعام یا مثل
|