ان کا جنازہ مسجد میں لاؤ، تاکہ ہم بھی ان کی نماز پڑھیں ، اس پر لوگوں نے انکار کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹے سہیل اور ان کے بھائی کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔
’’عن عائشۃ أنھا قالت لما توفي سعد بن أبي وقاص: ادخلوا بہ المسجد حتی أصلي علیہ۔ فأنکروا ذلک علیھا، فقالت: لقد صلیٰ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم علی ابني بیضاء في المسجد سہیل وأخیہ‘‘[1](رواہ مسلم، نیل الأوطار: ۳/ ۳۰۶)
[عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوگئے تو انھوں نے کہا کہ ان (کی میت) کو مسجد میں لے آؤ، تاکہ میں ان کی نماز جنازہ ادا کر سکوں ، مگر لوگوں نے ان کے اس مطالبے کا انکار کیا۔ انھوں نے فرمایا: الله کی قسم! رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دو بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نمازِ جنازہ مسجد میں ادا فرمائی تھی]
ابو داود کی حدیث: (( من صلیٰ علیٰ جنازۃ في المسجد فلا شيء لہ )) [2] [جس نے مسجد میں کسی میت کی نمازِ جنازہ ادا کی تو اس کے لیے کچھ نہیں ] سے اس کی کراہت پر بھی استدلال کیا گیا ہے، مگر اس کے راویوں میں صالح مولی التوأمہ ہے اور وہ ضعیف ہے، اس لیے یہ حدیث قابلِ استدلال نہیں ۔ علاوہ بریں ابو داود ہی کے بعض معتبر نسخوں میں بجائے (( لا شيء لہ )) کے (( لا شيء علیہ )) [اس پر کوئی گناہ نہیں پایا گیا ہے]
(نیل الأوطار: ۳/ ۳۰۷)
دفن کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنا:
سوال: میت کو دفن کرنے کے بعد اس کی قبر کے ارد گرد کھڑے ہو کر اس کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا حدیثِ نبوی سے ثابت ہے یا نہیں ؟ نیز گزارش ہے کہ ما حصل تحریر جواب سابق کا یہ ہے کہ بعد دفن المیت اس کے لیے استغفار کا ثبوت ہے اور آدابِ دعا سے رفع الیدین بھی حدیثِ نبوی سے ثابت ہے۔ پس بعد دفن المیت اس کے لیے ہاتھ اٹھا کر کرنا جائز ہے تو حضور میت کودفن کرنے کے بعد کے لیے استغفار کا ثبوت ہے نہ کہ دعا کا اور رفع الیدین آدابِ دعا سے ہے، نہ کہ استغفار سے۔ اس لیے کہ آدابِ استغفار سے ’’أن تشیر بأصبع واحدۃ‘‘[3]ہے۔ (مشکوۃ، باب الدعاء)
پس جب تک میت کودفن کرنے کے بعد اس کے لیے دعا کا ثبوت نہ ہو، تب تک کیونکر میت کودفن کرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا عمل اس پر محمول کیا جائے گا؟ محض بخیال رفعِ شک و احتمال بھی گزارش ہے کہ کیا لفظِ استغفار اور لفظِ دعا دونوں شے واحد ہیں یا نہیں اور جو حکم استغفار کا ہے، وہی حکم دعا کا بھی ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو پھر آدابِ استغفار
|