’’اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کی بنا پر چیز دے دی جائے تو لوگ دوسرے افراد کے مالوں اور خونوں پہ دعوے کر دیں ، لیکن گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور اس کا انکار کرنے والے (مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے]
’’قد أخرج البیھقي الحدیث بإسناد صحیح، کما قال الحافظ بلفظ: البینۃ علی المدعي، والیمین علی من أنکر‘‘[1] (نیل الأوطار: ۸/ ۵۷۴)
[امام بیہقی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے، جس طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں اس کو بیان کیا ہے کہ گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور اس کا انکار کرنے والے (مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے]
’’وجاء في روایۃ البیھقي وغیرہ بإسناد حسن أو صحیح، عن ابن عباس عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: لو یعطی الناس بدعواھم لادعیٰ قوم دماء قوم و أموالھم، لکن البینۃ علی المدعي، والیمین علی من أنکر‘‘ انتھی (نووي شرح مسلم: ۲/ ۷۴) و اللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب
[بیہقی وغیرہ میں حسن یا صحیح سند کے ساتھ عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو محض ان کے دعوے کی بنا پر ہر چیز دے دی جائے تو لوگ دوسرے افراد کے خونوں اور مالوں پر دعوے کر دیں ، لیکن گواہی پیش کرنا مدعی کا فرض ہے اور اس کا انکار کرنے والے (مدعا علیہ) کے ذمے قسم کھانا ہے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ مہر مدرسہ أحمدیہ۔ الجواب صحیح۔ وصیت علی۔ الجواب صحیح۔ شیخ حسین بن محسن عرب۔ الجواب صحیح۔ ألفت حسین مدرس سوم مدرسہ أحمدیہ۔ الجواب صحیح و المجیب مصیب۔ محمد أصغر۔ مدرسہ أحمدیہ آرہ۔ ہذا الجواب صحیح عندي۔ محمد ضمیر الحق، عفي عنہ۔
ہبہ کا جواز اور لڑکی کو وراثت سے محروم کرنا[2]:
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید باحیات ہے، اس کی ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہے۔ زید اپنی جائداد منقولہ و غیر منقولہ کو اپنے لڑکے یا پوتے کے نام ہبہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس حیلے سے اپنے بعد وفات لڑکی کو ترکہ سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ آیا یہ ہبہ شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ اس ہبہ ہوجانے کے بعد جب کہ زید انتقال کرے تو اس کی لڑکی شرعاً ترکہ لے سکتی ہے یا نہیں ؟ ہبہ کے جواز یا عدمِ جواز کو اور نیز شرعاً ترکہ پانے کو مدلل بقرآن
|