کتاب الصوم
آرام دہ سفر میں روزہ چھوڑنا:
سوال: روزہ رمضان کو ایسے سفر میں کہ ہر طرح پر آسائش و آرام ملے اور سواری ریل کی ہو، ایسی صورت میں روزہ افطار کرنا چاہیے یا نہیں ؟ کیونکہ کسی امر کی تکلیف اس سفر میں نہیں ہے۔
جواب: حالتِ سفر میں روزہ رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے اور یہ قید نہیں ہے کہ وہ سفر آرام کا ہو یا نہ ہو۔ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:﴿فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾
(قرآن شریف پارہ ۲ سورۃ بقرۃ، رکوع ۲۳)
[پھر تم میں سے جو بیمار ہو، یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے]
وعن أنس بن مالک قال: کنا نسافر مع النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فلم یعب الصائم علی المفطر، ولا المفطر علی الصائم۔[1]و اللّٰه أعلم (بخاري شریف مع فتح الباري، طبع دہلی: ۲/ ۲۸۱)
[انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ ہم نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے تو روزے دار روزہ چھوڑنے والے پر اعتراض کرتا تھا اور نہ روزہ چھوڑنے والا روزے دار پر]
کتبہ أضعف عباد المعبود المدعو بمحمود عفا اللّٰه عنہ۔ الجوابات کلھا صحیحۃ۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الأجوبۃ ناطقۃ بالحق والصواب بلا شک وارتیاب۔ محمد سلیمان۔
روزے کا فدیہ:
سوال: میں جہاں تک قرآن شریف کو دیکھتا ہوں ، روزۂ رمضان کی بابت مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ روزے کا رکھنا افضل و اولیٰ تو بے شک ہے، مگر یہ نہیں کہ اس کا فدیہ نہ ہوسکے۔ آیاتِ قرآن ملاحظہ ہوں :﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنَ﴾ [البقرۃ: ۱۴۸] اس آیت کی نسبت جتنے اقوال ہیں ، میری نظر میں ہے۔ 1۔’’لا‘‘ مقدر ہے۔ 2 ۔ہمزہ افعالِ سلب کے لیے ہے۔ 3۔﴿فَلْیَصُمْہٗ﴾ سے منسوخ ہے۔ (قولِ صحابہ فی البخاری)
تیسرا قول پہلے دونوں کے خلاف ہے، کیونکہ نسخ چاہتا ہے کہ نہ ’’لا‘‘ مقدر ہے نہ ہمزہ سلب ہے، تاکہ مفہوم مخالف ہو کر نسخ ہو سکے، بلکہ وہی معنی ہیں جو متبادر ہیں کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں ، نہ رکھنے کی صورت
|