جواب: ہندہ کے طلبِ طلاق کے جواب میں زید کا یہ کہنا کہ ’’جب تم نے طلب طلاق کا کیا‘‘ ایقاعِ طلاق میں صریح نہیں ہے۔ یہ کلام دو مطلب کا محتمل ہے۔ ایک یہ کہ جب تم نے طلب طلاق کا کیا طلاق ہوگیا، یعنی تمھارا طلب طلاق کا کرنا ہی طلاق ہوجاتا ہے، یعنی عورت کے مجرد طلب طلاق سے طلاق واقع ہو جاتا ہے، دوسرے یہ کہ جب تم نے طلب طلاق کا کیا طلاق ہوگیا، کیونکہ جب طلب طلاق کا کیا، اسی وقت میں نے تم کو طلاق دے دیا۔ اگر زید کا مطلب اس کلام سے احتمالِ اول ہے تو طلاق نہیں ہوا، کیونکہ عورت کے مجرد طلبِ طلاق سے طلاق نہیں ہوتا اور اگر زید کا مطلب احتمالِ ثانی ہے تو طلاق ہوگیا اور عدت بھی گزر گئی۔ اب ہندہ کا دوسرا نکاح جائز ہے۔
بہر کیف زید سے استفسار کیا جائے کہ اس نے اس کلام کو کس مطلب سے کہا تھا؟ حسبِ بیان اس کے عمل کیا جائے اور اگر کہے کہ اب مجھے یاد نہیں رہا کہ میں نے کس مطلب سے کہا تھا تو اس سے دریافت کیا جائے کہ ہندہ کے طلاق طلب کرنے کے وقت تمھیں یہ معلوم تھا کہ عورت کے مجرد طلبِ طلاق سے طلاق ہوجاتا ہے؟ اگر یہ کہے کہ یہ مجھے معلوم نہیں تھا، تو اس صورت میں طلاق ہو جائے گا، کیونکہ اب احتمال اول باقی نہیں رہا۔ صرف احتمال ثانی متعین ہے۔ اگر کہے کہ ہاں یہ مجھے معلوم تھا، مگر اب یاد نہیں رہا کہ میں نے کس مطلب سے کہا تھا یا زید کچھ بیان ہی نہ کرے تو اس صورت میں طلاق نہ ہوگا، کیونکہ زید کا مذکورہ بالا کلام محتمل ہے اور جو کلام اس نے سفر سے لکھا ہے، اس سے بھی کسی مطلب کی تعیین نہیں ہوتی، کیونکہ وہ بھی مثل اس کے محتمل ہے اور ہندہ اس کلام کے پہلے یقینا زید کی منکوحہ تھی اور اس محتمل کلام کے بعد شک پڑ گیا کہ طلاق ہوا یا نہیں اور یہ شرعی اصول ہے کہ ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ یعنی یقین، شک سے زائل نہیں ہوتا، تو نکاحِ ہندہ جو یقینی ہے، اس مشکوک طلاق سے زائل نہیں ہوا۔ وہ بدستور زید کی منکوحہ رہی۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ الجواب صحیح۔ أبو الفیاض محمد عبد القادر اعظم گڑھی مؤی۔
دو طلاقوں کے بعد رجوع کا مسئلہ:
سوال: عبد الله سردار نے اپنی بی بی کو بوجہ اس کے اِعراض و نشوز کے لکھ کر طلاق بائن دے دیا تھا، بعدہ بوقت نکاحِ ثانی مجلسِ نکاح میں پھر دوبارہ زبانی طلاق دے دیا تھا اور مدت ڈیڑھ برس کی گزر گئی ہے، اس بنا پر وہ بی بی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے یا نہیں اور اس انقضا پر عبد الله سردار پر وہ بی بی حرام ہوگئی ہے یا حلال ہے اور عبد الله سردار بلا تجدیدِ نکاح اس بی بی کو جبراً اپنے تحت میں لا سکتے ہیں یا نہیں ؟
جواب: سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبد الله سردار نے اپنی بی بی کو صرف دو بار طلاق دی، پہلی بار لکھ کر، دوسری بار زبانی اور سوال سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ دوسری طلاق پہلی طلاق کی عدت کے اندر دی یا عدت کے بعد دی اور اگر عدت کے بعد دی تو نکاحِ ثانی کے قبل یا نکاحِ ثانی کے بعد دی؟ پس اگر عبد الله سردار نے اپنی بی بی کو فی الواقع دو ہی طلاق دی ہو اور دوسری طلاق پہلی طلاق کی عدت گزر جانے اور اس بی بی سے نکاحِ ثانی کرنے کے بعد دی ہو تو اس صورت میں اگر طلاق ثانی کی عدت نہ گزری ہو تو عبد الله سردار اپنی بی بی کو بلا تجدیدِ نکاح صرف رجعت کر کے
|