ساتھ معارض ہے، جو اس روایت کے آخر میں بیان ہوا ہے کہ وہ نامکمل ہے، کیونکہ وہ منع کے ضمن میں ہے۔ بالفرض اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہر قراء ت کی وجہ سے اس سے منع کیا، دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قراء ت سنی، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی وجہ سے: (( مالي أنا زع القرآن )) معارضہ ثابت نہیں ہوتا ہے، کیونکہ تطبیق ممکن ہے۔ لہٰذا اس سے نہی کو جہر پر محمول کیا جائے گا، کیونکہ وہ حدیث میں مذکور منازعہ کو مستلزم ہے اور جہاں اس کے پڑھنے کا حکم دیا ہے تو وہ مخفی پڑھنے کا حکم ہے، جس کی دلیل ابوہریرہ سے مروی نماز کی تقسیم والی حدیث میں ان کا یہ قول ہے کہ اے فارسی! اس کو دل میں پڑھو۔ پس اتنی سی بات سے امام کے پیچھے قراء ت سے ممانعت ثابت نہیں ہوتی ہے]
و اللّٰه أعلم بالصواب، وإلیہ الرجع والمآب۔ حررہ أبو المکارم محمد علی صانہ اللّٰه عن شر کل غبي و غوي۔
ابو المکارم محمد علی (۱۲۹۹ھ) سید محمد نذیر حسین (۱۲۸۱ھ) محمد عبد الحمید (۱۲۹۳ھ)
سید احمد حسین (۱۲۸۹ھ) خادم شریعت رسول الثقلین محمد حسین (۱۲۹۲ھ)
محمد عبد العزیز (۱۲۸۸ھ) المعتصم بحبل الله الاحد ابو البرکات الحافظ محمد (۲۹۲اھ)
ز شرف سید کونین شد شریف حسین (۱۲۹۳ھ) محمد بن محمد عبد الله (۱۲۹۸ھ)
محمد حبیب ابو الخیرات الله (۱۲۹۸ھ) محمد عبد الله (۱۲۹۱ھ)
محمد اسحاق (۱۲۹۲ھ) شہاب الدین (۱۲۸۸ھ) محمد عبد الغفار (۱۲۸۸ھ)
نماز میں ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کے بعد ’’رَبِّ اغْفِرْ لِيْ آمِیْنَ‘‘ کہنا:
سوال:﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کے بعد نماز میں ’’رَبِّ اغْفِرْ لِيْ آمِیْنَ‘‘ کہنا مسنون ہے یا نہیں ؟
جواب: حصن حصین میں طبرانی سے نقل کیا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ کہتے تو ’’رَبِّ اغْفِرْ لِيْ آمِیْنَ‘‘ کہتے، اور لفظ حدیث کا یہ ہے:
(( وحین قال﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ قال رب اغفر لي آمین )) [1]
[جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ﴿وَلَا الضَّآلِیْنَ﴾ پڑھتے تو کہتے: ’’رب اغفرلي آمین‘‘ اے میرے رب مجھے بخش دے اور قبول فرما]
طبرانی کی اس حدیث کی سند معلوم نہیں اور طبرانی بھی یہاں موجود نہیں کہ اس میں سند دیکھی جائے، لیکن حصن حصین کے دیباچے میں صاحبِ حصن حصین نے لکھا ہے کہ میں نے اس کتاب کو صحیح حدیثوں سے نکالا ہے اور
|