اس کی لڑکی کا نسب زید سے ثابت ہوگا۔ ترکہ زید سولہ سہام پر تقسیم ہو کر ازاں جملہ ایک سہم اس کی بی بی کو اور ایک سہم اس عورت کو اور چودہ سہام اس لڑکی کو پہنچیں گے۔ و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: أبو العلی محمد عبد الرحمن، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
شوہر، بیٹا، والد اور دو بیٹیاں :
سوال: 1۔ زید ایک پسر مسمی بکر اور ایک دختر مسماۃ زینب رکھتا تھا اور اکثر جائداد و غیر منقولہ بنام بکر اور زینب بطورِ اسم فرضی کے خرید کی۔ حیاتِ زید میں زینب نے قضا کی، پس اس جائداد غیر منقولہ فرضی میں حق زینب کا ہے یا نہیں ؟
2۔ جو جائداد منقولہ زینب کی ہے، اس میں زینب نے ایک شوہر مسمی خالد اور دو دختر مسماۃ ہندہ و حفصہ اور یک پدر مسمی زید اور ایک برادر مسمی بکر وارث چھوڑے۔ پس تقسیم متروکہ زینب کی ازروے شرع شریف کیونکر ہوگی؟
3۔ دینِ مہر زینب کا نہ خالد نے ادا کیا نہ خالد کو زینب نے معاف کیا، اس صورت میں زید پدر زینب مستحق دینِ مہر کا ہے یا نہیں ؟
4۔ ابتدائے زمانہ عقد زینب و خالد سے تادم ممات زینب زید پدر زینب پرورش کنندہ زینب و خالد کا رہا، خالد کبھی کفیل نان و نفقہ نہ ہوا، حتی کہ تجہیز و تکفین بھی زینب کی زید پدر زینب نے کی، اس صورت میں ولی جائز ہندہ و حفصہ صبیہ زینب کا کون ہوگا؟
جواب: 1۔اگر زید نے جائداد مذکورہ نج کے زرِ ثمن سے خرید کی تھی اور زینب کو اس کے نام کی جائداد پر قابض اور دخیل نہیں کیا تھا یا کیا تھا، لیکن ورثہ زینب کو جائداد مذکورہ کی خریداری کا بطورِ اسم فرضی ہونا تسلیم ہے تو اس صورت میں جائداد مذکورہ میں زینب کا کچھ حق نہیں ہے اور اگر جائداد مذکورہ زینب کے زرِثمن سے خرید کی تھی یا نج کے زرِثمن سے خرید کی تھی اور زینب کو اس پر قابض اور دخیل نہیں کر دیا تھا، لیکن ورثہ زینب اس کی خریداری بطورِ اسم فرضی تسلیم نہیں کرتے اور نہ ان کے مقابلے میں باضابطہ ثبوت اس کے باسم فرضی ہونے کا دیا گیا تو اس صورت میں جائداد مذکورہ میں زینب کا حق ہے اور وہ جائداد بعد ممات زینب کے زینب کا ترکہ ہے، جس کی تقسیم کا طریقہ سوال نمبر2 کے جواب میں مذکور ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ ایک کارروائی جو باسم فرضی ہوتی ہے، وہ شرعاً ہزل کہلاتی ہے اور ہزل تین چیزوں (نکاح، طلاق، رجعت) میں شرعاً جد، یعنی سچ مچ کی کارروائی متصور ہوتی ہے:
(( ثلاث جدھن جد، وھزلھن جد، النکاح و الطلاق و الرجعۃ )) [1]
(أخرجہ أبو داود و ابن ماجہ والترمذي)
یعنی اگر کوئی شخص نکاح یا طلاق یا رجعت ہزلاً کرے تو وہ شرعاً سچ مچ کا نکاح یا طلاق یا رجعت سمجھا جائے گا۔
بیع یا ہبہ میں مثلاً ہزلاً کرے تو وہ ہزل ہی متصور ہوگا، سچ مچ کی بیع یا ہبہ متصور نہ ہوگا۔ پس صورت مذکورہ میں
|