قیاس درست نہیں ہے]
باقی رہا قضا رکھنا، پس قصداً جماع سے روزہ توڑنے والے کو قضا رکھنا بعض روایتوں سے ثابت ہے۔ ’’تلخیص الحبیر‘‘ (ص: ۱۹۶) میں ہے:
’’وروي في بعض الروایات أنہ قال للرجل: (( واقض یوما مکانہ )) أبو داود من حدیث ھشام بن سعد عن الزھري عن أبي سلمۃ عن أبي ھریرۃ، وأعلہ ابن حزم بھشام بن سعد، وقد تابعہ إبراھیم بن سعد، کما رواہ أبو عوانۃ في صحیحہ۔۔۔ وقال سعید بن منصور: ثنا عبد العزیز بن محمد عن ابن عجلان عن المطلب بن أبي وداعۃ عن سعید بن المسیب جاء رجل إلیٰ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال: یا رسول اللّٰه ! إني أصبت امرأتي في رمضان؟ فقال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( تب إلی اللّٰه واستغفرہ، وتصدق، واقض یوما مکانہ )) [1] انتھی ملخصاً
[بعض روایات میں مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو کہا کہ اس دن کے عوض ایک دن کا روزہ رکھ کر قضا دو۔ ابو داود نے ہشام بن سعد کے واسطے سے بیان کیا ہے، وہ زہری سے بیان کرتے ہیں ، وہ ابو سلمہ سے اور وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ ابن حزم رحمہ اللہ نے ہشام کی وجہ سے اسے معلول قرار دیا ہے، جب کہ ابراہیم بن سعد نے ان کی متابعت کی ہے، جس طرح ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے۔۔۔
سعید بن منصور نے کہا کہ ہمیں عبد العزیز بن محمد نے بیان کیا ہے، انھوں نے ابن عجلان سے روایت کیا ہے، انھوں نے مطلب بن ابی وداعہ سے اور انھوں نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے رمضان میں (روزے کے دوران میں ) اپنی بیوی سے جماع کر لیا ہے؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کی طرف توبہ کر، اس سے بخشش طلب کر، صدقہ دے اور اس دن کے عوض ایک دن کا روزہ رکھ]
قصداً کھانے یا پینے سے روزہ توڑنے والے کے قضا رکھنے کی نسبت اختلاف ہے، بعض کے نزدیک قضا رکھنا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں ۔
کتبہ: أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري، عفي عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔
اختلافِ مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟
سوال: اختلافِ مطالع شرعاً معتبر ہے یا نہیں ؟
|