مرجانے کا خوف نہ ہو تو اس کا ہبہ پورے مال سے معتبر ہے، کیونکہ جب زمانہ دراز ہوا تو یہ مرض من جملہ اس کی طبائع کے ایک طبیعت بن گیا، اسی و جہ سے وہ اس کے دوا و علاج میں مشغول نہیں ہوتا ہے اور اگر وہ اس ہبے کے بعد صاحبِ فراش بن گیا تو وہ مرض حادث کے مانند سمجھا جائے گا اور اگر اس نے اس مرض (گٹھیا اور فالج وغیرہ) کے لاحق ہونے کے وقت ہبہ کیا اور انھیں ایام میں مر گیا (یعنی مرض میں زمانہ دراز نہیں ہوا) تو تہائی سے اس کا اعتبار ہوگا، بشرطیکہ وہ صاحبِ فراش بن چکا ہو، کیونکہ یہ ایسا مرض ہوا جس سے موت کا خوف ہے، اسی و جہ سے وہ دوا کرنے میں مشغول ہوتا ہے تو یہ مرض الموت کے افراد میں سے ہے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ احمدیہ)
والد کا مشترکہ کمائی سے بنی ہوئی جگہ کو ہبہ کرنا:
سوال: زید کے والد کو موروثی مکان صرف ایک قطعہ ملا تھا۔ زید قریب پچیس سال سے اپنے والد کے ساتھ تجارت کیا کرتا ہے، بلکہ تجارت کا اکثر کام خرید و فروخت، مہاجن کا لین دین اپنے ذمہ لے لیا، والد براے نام دکان پر بیٹھتے ہیں ، اسی آمدنی سے دوسرا قطعہ مکان و دیگر جائداد خریدی گئی۔ زید کے والد نے اپنی بہو (دوسرے لڑکے مرحوم کی بیوی) کو دونوں قطعے ہبہ کر دیے۔ سوال یہ ہے کہ زید کے والد اپنے موروثی مکان، جو ان کے باپ کی میراث سے ملا ہے، اس کے علاوہ دوسرا مکان جو زید کی مشترک کمائی سے حاصل کیا گیا ہے، ہبہ کر سکتے ہیں یا نہیں اور اگر ہبہ کر دیا تو جائز ہوگا یا نہیں ؟
جواب: زید جو قریب پچیس سال سے اپنے والد کے ساتھ تجارت کرتا ہے۔ اگر اس تجارت میں زید اور اس کے والد دونوں کے روپے لگے ہیں ، یعنی زید کے والد اور زید دونوں اس تجارت میں روپیہ سے شریک ہیں تو اس صورت میں دوسرے مکان کو زید کے والد کسی شخص کو بلا اجازتِ زید ہبہ نہیں کر سکتے ہیں اور اگر ہبہ کر دیا تو ہبہ ناجائز ہوا۔ اگر اس تجارت میں صرف زید ہی کے روپے لگے تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے، جو پہلی صورت میں مذکور ہوا اور اگر اس تجارت میں صرف والدِ زید کے روپے لگے ہیں تو اگر زید کے والد نے زید کو اس تجارت کے نفع میں شریک نہیں کیا ہے، بلکہ زید اپنے والد کے ساتھ بطریق تبرع اس تجارت کا کام کرتا ہے تو اس صورت میں زید کے والد دوسرے مکان کو ہبہ کر سکتے ہیں اور اگر ہبہ کر دیا تو جائز ہوا، کیونکہ اس صورت میں اصل روپیہ اور اس کا نفع زید کے والد کا ہے، پس زید کے والد کو اختیار ہے، جس کو چاہیں دے دیں ۔ و اللّٰه أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۲۲؍ شوال ۱۳۳۴ھ)
اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کرنا ضروری ہے:
سوال: زید کی چند اولاد ہیں اور سب کو اس نے زیورات و جہیز وغیرہ دے کر شادی کر دی۔ ایک لڑکی باقی ہے اور اب زید کی ملک میں بجز ایک مکان کے جو تخمیناً قیمت میں اول اولاد کے زیورات اور جہیز کے برابر بھی نہ ہوگا، کچھ نہیں ہے، اس صورت میں زید اگر اس مکان کو اس لڑکی کو ہبہ کرنا چاہے، جو اب تک ناکد خدا [کنواری] ہے تو اور اولاد کو روکنے کا حق ہے یا نہیں ؟
|