اسے ہی متولی کو معزول کرنے کا حق بھی حاصل ہے]
لیکن جو متولی ہو، اس میں یہ شرط ہے کہ امانت دار ہو خائن نہ ہو۔ اگر اس کا خائن ہونا ثابت ہوجائے تو تولیت اس سے منتزع کر لی جائے، یعنی تولیت سے اس کو معزول کر دینا واجب ہے، اگرچہ واقف ہی کیوں نہ ہو اور متولی میں یہ بھی شرط ہے کہ صالح ہو، فاسق نہ ہو، یعنی بدکار نہ ہو۔ اگر فاسق ہو، مثلاً: شرابی ہو یا زنا کار ہو یا بے نمازی ہو تو اس کو بھی متولی کرنا جائز نہیں ہے اور اگر متولی ہوچکا ہو تو اس کو تولیت سے معزول کر دینا واجب ہے، اگرچہ واقف ہی کیوں نہ ہو۔ در مختار مع شامی (چھاپہ مصر جلد: ۳) میں ہے:
’’(وینزع وجوبا) بزازیۃ (لو) الواقف۔ درر۔ فغیرہ بالأولیٰ (غیر مأمون) أو عاجزا أو ظھر بہ فسق کشرب خمر ونحوہ۔ فتح‘‘اھ
[وجوباً اس سے چھین لیا جائے گا (بزازیہ) اگرچہ وہ واقف ہی ہو (درر) تو دوسرا تو اس کا زیادہ لائق ہے (کہ اس سے یہ منصب چھین لیا جائے) خصوصاً جب وہ غیر مامون یا (اس کو ٹھیک طرح ادا کرنے سے) عاجز ہو یا اس میں فسق آچکا ہو، جیسے شراب نوشی وغیرہ (فتح)]
اور (۱/ ۲۵۸) میں ہے: ’’(وتارکھا) أي تارک الصلاۃ (عمدا مجانۃ) أي تکاسلا فاسق‘‘ [عمداً اور سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نماز کا ترک کرنے والا فاسق ہے] و اللّٰه أعلم بالصواب۔
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (مہر مدرسہ)
سوال: زید نے اپنی ایک جائداد مصرفِ خیر میں وقف کی اور اس کے انتظامِ صرف کی بابت واجب العرض مصدقہ بندوبست میں اور وصیت نامہ میں حسبِ ذیل شرائط کیں اور واجب العرض وثیقہ موخر ہے، جو حیاتِ واقف میں تحریر ہوا۔
’’شرط واجب العرض مصدقہ بندوبست میں ‘‘
بالفعل میں زید اس موضع کا مہتمم ہوں ۔ میرے اختیار سے آمدنی مصرفِ خیر میں صرف ہوتی رہے گی اور بعد فوت مہتمم کے مہتمم کی اولاد سے جو شخص از قسم ذکور لائق ہو، وہ مہتمم مقرر ہو کر نسلاً بعد نسل و بطناً بعد بطن آمدنی صرف کرتا رہے گا، مگر کسی مہتمم کو اختیار انتقالِ جائداد کا نہ ہوگا۔ اگر کوئی مہتمم براہِ بددیانتی یا بے ایمانی آمدنی اس کی مصرفِ خیر میں صرف نہ کرے تو وہ بثبوتِ امور مذکورہ لائقِ موقوفی متصور ہو کر سرکار کو اختیار ہے کہ جس شخص کو لائق اور مناسب خاندان سے سمجھے، مہتمم مقرر کرے۔
’’شرط وصیت نامہ‘‘
اقرار یہ ہے کہ میں تاحیات اپنی آمدنی و پیداوار مواضعات مذکورہ کو اپنے ہاتھ اور اختیار سے حسبتاً ﷲ صرف کرتا
|