’’فلما کان عثمان وکثر الناس، زاد النداء الثالث علیٰ الزوراء‘‘[1]
[جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت آیا اور لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو انھوں نے تیسری اذان کا اضافہ کر دیا جو ’’زوراء‘‘ مقام پر کھڑے ہو کر کہی جاتی تھی]
نیز صحیح بخاری (۲۸/ ۳۶۴) کی ’’کتاب المحاربین‘‘ میں ’’باب رجم الحبلیٰ من الزنا إذا أحصنت‘‘ میں ہے:
’’فجلس عمر علیٰ المنبر فلما سکت المؤذنون، قام فأثنی علیٰ اللّٰه بما ھو أھلہ، ثم قال: أما بعد۔۔۔ الخ‘‘[2]
[عمر رضی اللہ عنہ منبر پر تشریف فرما ہوتے، جب موذن اذان کہہ کر خاموش ہوگئے تو وہ کھڑے ہوتے، الله تعالیٰ کے شایانِ شان اس کی ثنا بیان کی اور پھر کہا: أما بعد۔۔۔۔]
حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ اور ترجیعِ اذان:
سوال1: جس وقت حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے استہزاے اذان کیا تھا، اس وقت ابو محذورہ اسلام لائے تھے یا قبل استہزا کے؟
2۔ فی الواقع حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کو کراہیت تھی یا محض افترا ہے؟
3۔ حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ کسی کتاب میں تحریر ہو تو ارقام فرما دیں ۔
4۔ استہزا کی کوئی تاویل ہے یا علت کفر ہے؟ جیسا کہ مولوی رشید احمد صاحب مرحوم نے لکھا ہے۔
5۔ جمہور ترجیعِ اذان کے قائل ہیں یا نہیں ؟ کسی کتاب شروحِ حدیث میں لکھا ہو تو تحریر فرما دیں ۔
جواب: 1۔ابو محذورہ رضی اللہ عنہ نے جس وقت اذان کا استہزا کیا تھا، اسلام نہیں لائے تھے۔
2۔ جس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے، ظن غالب یہی ہے کہ اسلام کی جانب سے ان کو کراہت قلبی رہی ہوگی۔
3۔ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا واقعہ مفصل کسی کتاب میں مرقوم ہے، لیکن مجمل طور پر تو اسی حدیثِ اذان ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو استہزاے اذان کی آواز سن کر بلوا بھیجا اور ان میں سے ہر ایک سے اذان کہلوائی۔ ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی آواز آپ کو خوش معلوم ہوئی، تب آپ نے ان کے کل ساتھیوں کو رخصت فرما دی اور ان کو رکھ چھوڑا اور اپنے سامنے بیٹھا کر ان کے سر اور منہ اور سینے پر ناف تک اپنا دست مبارک پھیرا اور تین بار ان کو برکت کی دعا دی اور فرمایا: تم جاؤ اور بیت الحرام کے پاس اذان کہو، انھوں نے عرض کی کہ مجھ کو سنتِ اذان تعلیم فرما دیجیے، تب آپ نے خود بہ نفس نفیس سنتِ اذان سکھا دی اور اس کام کو اور کسی کے سپرد نہیں فرمایا۔ آپ نے جو سنتِ اذان تعلیم فرمائی، اس میں ہے کہ ترجیع بھی خود آپ ہی نے تعلیم فرمائی ۔ تعلیمِ اذان کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست پر ان کو مکہ معظمہ کا موذن مقرر فرمایا، جو اب تک یہ عہدہ ان کے خاندان میں چلا آیا۔
|