’’في الإسعاف: ولا یولیٰ إلا أمین قادر بنفسہ أو بنائبہ، لأن الولایۃ مقیدۃ بشرط النظر، ولیس من النظر تولیۃ الخائن، لأنہ یخل بالمقصود، وکذا تولیۃ العاجز، لأن المقصود لا یحصل بہ‘‘
[الاسعاف میں ہے کہ (وقف کی) ولایت صرف اسی کو سونپی جائے جو امانت دار ہو اور از خود یا کسی نائب کے ساتھ اس پر قادر ہو، کیونکہ ولایت نظر و فکر کی شرط کے ساتھ مقید ہے، جب کہ خائن کی تولیت میں نظر و فکر کی صلاحیت نہیں ہوتی، کیونکہ یہ (خیانت) مقصود کو پورا کرنے میں خلل انداز ہوتی ہے، ایسے ہی عاجز آدمی کی تولیت ہے، کیونکہ اس سے بھی مقصود حاصل نہیں ہوتا ہے]
ایضاً (۳/ ۳۸۶) میں ہے:
’’من جامع الفصولین: إذا کان للوقف متول من جھۃ الواقف أو من جھۃ غیرہ من القضاۃ، لا یملک القاضي نصب متول آخر بلا سبب موجب لذلک، وھو ظھور الخیانۃ أو شییٔ آخر‘‘
[جامع الفصولین سے (نقل کیا گیا) ہے کہ جب وقف کرنے والے کی طرف سے یا اس کے علاوہ قضاۃ میں سے کسی کی طرف سے وقف پر کوئی نگران و سرپرست مقرر ہو تو قاضی کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ کسی ایسے سبب کے بغیر کوئی اور نگران متعین کرے جو سبب اس تبدیلی کا موجب ہو، جیسے خیانت کا ظاہر ہونا یا اس طرح کی کوئی اور چیز]
فتاویٰ عالمگیری (۳/ ۲۱۹ چھاپہ مصطفائی) میں ہے: ’’الصالح للنظر من لم یسأل الولایۃ للوقف‘‘ و اللّٰه أعلم۔ [ولایت کے لیے پسندیدہ شخص وہ ہے، جس نے وقف کی ولایت و نگرانی کا نہ مطالبہ کیا]
کیا وقف علی الاولاد جائز ہے؟
سوال: وقف علی الاولاد مذہبِ اہلِ حدیث میں جائز ہے یا نہیں ؟ زمانہ مبارک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں وقف علی الاولاد وقوع میں آیا یا نہیں ؟
جواب: 1۔جائز ہے، اس واسطے کہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اراضی بنی النضیر کو، جو الله تعالیٰ نے آپ کو بالخصوص عطا فرمایا تھا، اپنے اہل پر وقف فرمایا تھا، جس میں آپ کی اولاد طاہرہ بھی داخل ہیں اور آپ ان کو اراضی مذکورہ کے غلہ (محاصل و پیداوار) میں سے ہمیشہ دیا کیے۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے جانشین حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بھی اپنے عہد میں یہی کرتے رہے، پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اپنے عہد میں بھی ایسا ہی کرتے رہے اور باوجود دعویٰ وارثین کے مدعیانِ وراثت کو ان دونوں صاحبوں نے وراثت کی ڈگری نہیں دی اور عذر یہی پیش کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے اراضی مذکورہ کو مع دیگر اراضی فدک و خیبر کے وقف فرمایا ہے، چنانچہ فرمایا:
|