[اگر وہ اس (اپنی بیوی) کو کہے کہ تو میری ماں ہے تو وہ ظہار کرنے والا شمار نہ ہوگا۔ ہاں ایسا کرنا مکروہ ہے]
المجیب محمد ضمیر الحق الآروي، عفا اللّٰه عنہ۔ الجواب صحیح۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه ۔ إنہ لحق۔ کتبہ: أبو العلیٰ محمد عبد الرحمن المبارکفوري۔
ایلا کے بعد رجوع کا طریقہ کار:
سوال: اگر کوئی شخص حالتِ غصہ میں اپنی بیوی کو کہے کہ اگر ہم تم سے نزدیکی کریں ، یعنی تم سے مجامعت کریں تو ہم تمھارے جنے ہوئے ہوں ، یا اگر کہے کہ تم ہماری ماں ہو۔ ان دونوں صورتوں میں طلاق ہوگی یا نہیں اور کفارہ لازم ہوگا یا نہیں اور تا ادائے کفارہ مجامعت کر سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: واضح ہو کہ ان دونوں صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی، بلکہ صورت ایلا کی یہاں قائم ہوگی، اس لیے کہ اس شخص نے اس کلام سے اپنی بیوی سے جماع کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے، اسی کا نام شریعت میں ایلا ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر چار ماہ کے اندر قسم توڑ دے، یعنی وطی کر لے تو کفارۂ قسم لازم ہوگا، جس کی تفصیل سورۃ مائدہ رکوع (۱۲) میں ہے اور اگر چار ماہ تک اس قسم کو نہیں توڑا اور نہ طلاق دیا تو عورت بذریعہ حاکم مطالبہ کر سکتی ہے، پس حاکم جبراً رجوع کرائے گا یا طلاق دلائے گا۔
﴿لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآئِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْھُرٍ فَاِنْ فَآئُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ* وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ [سورۂ بقرہ، رکوع، آیت: ۲۲۵، ۲۲۶]
﴿ ٰٓیاََیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ* قَدْ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمْ تَحِلَّۃَ اَیْمَانِکُمْ﴾ [الطلاق، رکوع: ۱]
عن ابن عمر إذا مضت أربعۃ أشھر یوقف حتی یطلق، ولا یقع علیہ الطلاق حتی یطلق، ویذکر ذلک عن عثمان وعلي وأبي الدرداء وعائشۃ واثني عشر من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم ذکرہ البخاري في کتاب الطلاق۔[1]
[عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب چار مہینے گزر جائیں تو اسے قاضی کے سامنے پیش کیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ طلاق دے دے اور اس وقت تک طلاق واقع نہ ہوگی جب طلاق نہ دی جائے۔ عثمان، علی، ابو الدرداء، عائشہ اور بارہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی منقول ہے۔ اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الطلاق میں ذکر کیا ہے]
کتبہ: أبو الفیاض محمد عبدالقادر اعظم گڑھی مؤٔی، مدرس مدرسہ أحمدیہ۔
٭٭٭
|