چنانچہ بانکی پور پاگل خانہ میں ایک برس سے زیادہ ہوتا ہے کہ واسطے علاج کے داخل کیا گیا ہے، مگر ہنوز کچھ صورت افاقہ نہیں ہے اور نہ امید معلوم ہوتی ہے اور لڑکی بالغ ہوگئی ہے اور سن پندرہ تخمیناً برس سے زیادہ کا ہے اور لڑکی کا سسر جو کچھ زیور بدن میں لڑکی کے تھا، وہ سب علاوہ اس کے اسباب کے مقبوضہ اس کا وقت آنے کے روک رکھا، اس شک پر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس لڑکی کی دوسری شادی کر دیں اور یہاں میکہ کے لوگوں کی یہ رائے ہوئی کہ اس بارے میں جناب حافظ صاحب سے مسئلہ دریافت کرو کہ اس لڑکی کا دوسرا عقد ہوسکتا ہے یا نہیں اور ہم کو کب تک انتظار صحت کا اس کے کرنا چاہیے؟
اس واسطے عرض خدمت یہ ہے کہ حضور اس بات کو خوب سمجھ کر اور تحقیق فرما کر تحریر فرمائیے کہ ایسی حالت میں دوسرا عقد ہوسکتا ہے اور میں کیا کروں ؟ جیسا تحریر فرمائیں گے، ویسا عمل کروں گا۔ مقام آرہ، محلہ ملکی کتھاری بولن میاں ۔
جواب: ایسی حالت میں حاکم وقت کے حضور میں منجانب لڑکی درخواست کی جائے کہ اس کا شوہر اس قدر مدت سے پاگل ہوگیا ہے اور آج تک صحت نہیں ہے اور ایک برس سے زیادہ ہوتا ہے کہ واسطے علاج کے بانکی پور پاگل خانہ میں داخل کیا گیا ہے، مگر ہنوز کچھ صورت افاقہ نہیں ہے اور نہ امید معلوم ہوتی ہے، لہٰذا حضور میں عرضی ہذا گزران کر امیدوار ہوں کہ حسبِ فتویٰ شرع شریف منسلکہ عرضی ہذا میرے اور میرے شوہر فلاں ولد فلاں کے درمیان تفریق کر دی جائے کہ بعد تفریق دوسرا عقد کر لوں ، جس سے میرا گزر ہو سکے۔ زاد المعاد (۲/ ۱۹۳ مطبوعہ کانپور) میں ہے:
’’عن ابن سیرین أن عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ أجل مجنونا سنۃ فإن أفاق وإلا فرق بینہ وبین امرأتہ‘‘[1] اھ و اللّٰه تعالیٰ أعلم
[ابن سیرین رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجنون آدمی کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی۔ اگر اس کو اس دوران افاقہ ہوجائے تو درست، ورنہ (مجنون شوہر اور اس کی بیوی) دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے] کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۹؍ جمادی الآخر ۱۳۳۲ھ)
کیا شوہر کی بدچلنی کا علم ہونے پر نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
سوال: زید نے اپنی بیٹی صغیرہ مسماۃ ہندہ کا نکاح بکر سے کر دیا اور وقت نکاح کے زید بکر کو صالح جانتا تھا اور زید خود شراب خوار ہے نہ اس کے کنبے والے۔ جب ہندہ بالغہ ہوئی تو اس کو بکر کے فسق و فجور و بدچلنی کا حال معلوم ہوا، تب سے ہندہ برابر اس نکاح سے ناراضی ظاہر کرتی ہے اور بکر کے یہاں جانے سے انکار کرتی ہے، اس صورت میں ہندہ کا نکاح فقہ حنفیہ کے رو سے صحیح رہا یا باطل ہوگیا؟
جواب: اس صورت میں فقہ حنفیہ کے رو سے نکاح باطل ہوگیا، جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری مطبوعہ ہوگلی ۱۲۵۸ہجری (۱/ ۴۱۱، سطر ۴) میں ہے:
|