اس حدیث میں باوجود وسعت کے قربانی نہ کرنے والے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے اور ایسی وعید غیر واجب پر نہیں ہوتی ہے۔ اسی حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قربانی اُسی شخص پر واجب ہے جو قربانی کرنے کی وسعت رکھتا ہو اور اس میں نصاب کی قید ثابت نہیں ہے۔
کیا ایک بکری سارے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے؟
سوال: ایک بکری ایک گھر والے کی طرف سے قربانی کرنی جائز ہے یا نہیں ؟
جواب: جائز ہے۔
’’عن عمارۃ بن عبد اللّٰه قال: سمعت عطاء بن یسار قال: سألت أبا أیوب کیف کانت الضحایا علیٰ عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟ فقال: کان الرجل یضحي بالشاۃ عنہ وعن أھل بیتہ‘‘[1]
’’عمارہ بن عبد الله سے مروی ہے، انھوں نے کہا: میں نے عطا بن یسار سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے پوچھا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ سعادت مہد میں قربانیوں کا کیا دستور تھا؟ انھوں نے کہا: ہر شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری قربانی کر دیا کرتا تھا۔‘‘
قربانی کے گوشت اور چمڑے کا مصرف:
سوال: قربانی کے گوشت میں سے بطریق صدقہ یا بطریق دیگر مشرک و کافر مثلاً چمار وغیرہ کو دینا جائز ہے یا نہیں اور اس کے چمڑے کو فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد میں تیل و چٹائی وغیرہ کے واسطے صرف کرنا جائز ہے یا نہیں اور خون قربانی کے جانور کا اکثر دیہات میں چمار وغیرہ لے جایا کرتے ہیں تو ان کو اس کا خون دینا جائز ہے یا نہیں ہے؟ فقط
جواب: قربانی کے گوشت میں یہ قید نہیں ہے کہ مسلمان ہی کو دیا جائے، نہ کافر کو اور جب یہ قید نہیں ہے، تو کافر کو بھی بطریق ہبہ یا بطورِ صدقہ دینے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے اور قربانی کے چمڑے کو فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد کے تیل چٹائی وغیرہ میں صرف کرنا غیر قربانی کرنے والے کو جائز ہے، یعنی اگر قربانی کرنے والا کسی کو وہ چمڑہ دے دے اور وہ شخص اس چمڑے کو فروخت کر کے اس کی قیمت مسجد کے تیل چٹائی وغیرہ میں صرف کر دے تو جائز ہے اور قربانی کرنے والے کو جائز نہیں ، کیونکہ اس کو اپنی قربانی کا چمڑہ فروخت کرنا منع ہے۔ ہدایہ میں ہے:
قال علیہ السلام : (( من باع جلد أضحیتہ فلا أضحیۃ لہ )) [2] انتھی
[جس نے اپنی قربانی کی کھال فروخت کی، اس کی قربانی نہیں ہوئی]
تخریجِ زیلعی میں ہے:
|