نکاح کر لینا جوازِ نکاح کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ نکاح بلا اذنِ ولی ہے، جو نصاً باطل ہے۔
مشکوۃ (ص: ۲۶۲) میں ہے:
عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لا تنکح الأیم حتی تستأمر، ولا تنکح البکر حتی تستأذن )) [1]الحدیث (متفق علیہ)
[ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ کا نکاح نہ کیا جائے، حتی کہ اس سے مشورہ کر لیا جائے اور کنواری کا نکاح نہ کیا جائے، مگر اس کی اجازت سے]
وعن عائشۃ رضی اللّٰه عنہا أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل۔۔۔ الحدیث، وفیہ: فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي لہ )) [2]
(رواہ أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجہ والدارمي)
[سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بلاشبہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اپنے ولی (سرپرست) کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے۔ اور اس حدیث میں یہ الفاظ بھی ہیں : اگر ان (اولیا) کا اختلاف ہو تو سلطانِ وقت ہر اس عورت کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو]
نیل الاوطار (۶/ ۳۳) میں ہے:
’’وفي حدیث معقل ھذا دلیل علی أن السلطان لا یزوج المرأۃ إلا بعد أن یأمر ولیھا بالرجوع عن العضل فإن أجاب فذاک، وإن أصر زوجھا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم‘‘
[معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں یہ دلیل ہے کہ سلطان کسی عورت کا نکاح کرانے سے پہلے اس کے ولی کو حکم دے کہ وہ (اپنی مولیہ کو) نکاح سے روکنے کے عمل سے باز آجائے، اگر تو وہ بات مان لے تو درست اور اگر وہ اپنے فعل پر مصر رہے تو پھر سلطان اس عورت کا نکاح کرا دے]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۶؍ جمادی الآخرہ ۱۳۳۱ھ)
ولی کے بغیر نکاح کا حکم اور دو حدیثوں میں تطبیق:
سوال: عورت بالغہ مطلقہ بغیر اذن اپنے والد کے اپنا نکاح کر سکتی ہے یا نہیں ؟ اگر کر لیا تو جائز ہوگا یا نہیں ؟ قرآن و حدیث سے جو حکم ہو بیان فرمایا جائے اور حدیث (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل )) اور حدیث ((والأیم أحق بنفسھا من ولیھا )) میں کیا صورت جمع کی ہے؟
|