کتاب الفرائض
کیا عورت اپنا حصہ معاف کر سکتی ہے؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک عورت عاقلہ بالغہ نے اپنے طیب خاطر سے خواہ اپنے بھائیوں کی خوشامدانہ درخواست سے بدون کسی جبر و اکراہ اور خدع و فریب کے اپنا وہ حصہ جو اس کو اس کے باپ کی میراث سے ملنا تھا، اپنی بھائیوں کو معاف کر دیا اور کہا کہ مجھ کو اس حصہ سے کوئی دعویٰ نہیں ہے، میں وہ حصہ نہ لوں گی، میرے برادر اور برادرگان اس کو باہم تقسیم کر لیں تو یہ معاملہ شرعاً درست ہے یا نہیں اور بعد فوت اس عورت کے ورثہ اس کی اس جایداد کا دعویٰ دائر کر سکتے ہے یا نہیں اور ان کو اس جایداد کا لینا درست ہے یا نہیں ؟ ابسطوا الجواب فلکم الثواب والحکم ﷲ۔
جواب: یہ معاملہ شرعاً درست ہے۔ اب اس عورت کے ورثہ اس جایداد کو شرعاً واپس نہیں لے سکتے۔ عورت عاقلہ بالغہ اپنے مال میں ہر طرح کا تصرف کر سکتی ہے۔
قال البخاري: ’’قالت أسماء للقاسم بن محمد و ابن أبي عتیق: ورثت عن أختي عائشۃ بالغابۃ، وقد أعطاني معاویۃ مائۃ ألف فھو لکما‘‘[1] اھو غیر ذلک من الأحادیث ما یدل علی ھذا۔
[امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: اسما رضی اللہ عنہا نے قاسم بن محمد اور ابن ابی عتیق کو کہا کہ غابہ نامی جگہ سے مجھے میری ہمشیرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وراثت ملی ہے، جس کے عوض معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لاکھ (درہم) دیے ہیں ، میں وہ تم دونوں کو دیتی ہوں ۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث ہیں جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں ]
صورتِ مذکورہ سوال میں اس عورت نے اپنا حق معاف کر دیا ہے اور معاف کر دینا حقوق کا عین ہو یا دین، احادیثِ صحیحہ معتبرہ سے ثابت ہے۔
قال البخاري: ’’قال عمر رضی اللّٰه عنہ : إني أشھدکم یا معشر المسلمین علی حکیم إني أعرض علیہ حقہ من ھذا الفیئی فیأبیٰ أن یأخذہ‘‘[2] اھ
[امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے مسلمانوں کی جماعت! میں تم کو حکیم رضی اللہ عنہ پر گواہ بناتا ہوں
|