ولایتِ نکاح کے مسائل
ولایتِ نکاح کے حق دار اور ولی کے بغیر نکاح کا حکم:
سوال: ایک لڑکی نابالغہ ہے اور اس کی ماں حقیقی اور ماموں حقیقی اور نانا حقیقی نے اس کا نکاح کر دیا اور اس کا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے کہ وہ بوقتِ نکاح موجود نہ تھا اور وہ اس نکاح سے بالکل ناخوش و ناراض ہے اور کہتا ہے کہ ہم کو ہرگز یہ نکاح منظور نہیں ، تو ایسی حالت میں نکاح شرعاً درست ہوا یا نہیں اور ولی اس نابالغہ کا کون شخص شرعاً قرار پائے گا؟ جواب مدلل بدلیل شرعیہ ارقام فرمایا جائے۔
جواب: ایسی حالت میں نکاح شرعاً درست نہیں ہوا۔ ’’منتقی الأخبار‘‘ میں ہے:
عن أبي موسیٰ عن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( لا نکاح إلا بولي )) [1]
[ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرپرست (ولی کی اجازت) کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہوتا]
وعن سلیمان بن موسیٰ عن الزھري عن عائشۃ أن النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم قال: (( أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل، فنکاحھا باطل )) [2] الحدیث (رواھما الخمسۃ إلا النسائي)
[سلیمان بن موسیٰ رحمہ اللہ زہری رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے]
وعن أبي ھریرۃ رضی اللّٰه عنہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم : (( لا تزوج المرأۃ المرأۃ، ولا تزوج المرأۃ نفسھا، فإن الزانیۃ ھي التي تزوج نفسھا )) [3] (رواہ ابن ماجہ و الدارقطني)
[ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی عورت کسی عورت کا نکاح نہ کرے، نہ عورت خود اپنا نکاح کرے، پس بلاشبہ بدکار عورت ہی اپنا نکاح خود کرتی ہے]
’’نیل الأوطار‘‘ میں ہے:
’’قولہ: (( لا نکاح إلا بولي )) ھذا النفي یتوجہ إما إلی الذات الشرعیۃ، لأن الذات
|