واضح ہو کہ زید نے بکر اور خالد کو جو اپنے کل مال کا حصہ دیا تھا، اس کی مقداربہت قلیل تھی، بعدہ اس کی مقدار زیادہ ہوگئی، جو منجھلے بھائی بکر و خالد کا حاصل کردہ شدہ ہے اور خالد کے ذمہ دس بیس روپیہ قرض ہے، عمرو اس قرض کے ادا کرنے سے انکار کرتا ہے اور دونوں بھائی، یعنی بکر و خالد کی جائداد ایک جا ہے۔ ایسی حالت میں مرحوم کی جائداد قائم کرنے کی کیا صورت ہے؟ الراقم: محمد شفیع و غلام محمد مقام جگن ناتھ پور۔ ضلع سنگہ بھوم
جواب: ایسی حالت میں عمرو خالد کے مال متروک کا وارث اور حقدار ہو سکتا ہے۔ جس کی تفصیل جواب میں آتی ہے۔ زید نے اپنی زندگی میں اپنی کل جائداد صرف لڑکوں کو دی اور لڑکیوں کو کچھ نہیں دیا، یہ دینا زید کا ناجائز اور نادرست ہوا۔ لہٰذا کل جائداد مذکورہ بدستور زید ہی کی ملک رہی اور زید کے لڑکے اس دینے سے اس جائداد کے مالک نہیں ہوئے، لہٰذا بعد مرنے زید کے کل جائداد مذکورہ متروکہ زید قرار پائی اور زید کے وارثوں میں اس کے مرنے کے بعد اس طرح تقسیم ہوگی کہ (بعد تقدیم ما تقدم علی الارث ورفع موانعہ) ثمن، یعنی آٹھواں حصہ جائداد مذکورہ کا زید کی بی بی مریم کو ملے گا اور باقی زید کے لڑکوں اور لڑکیوں کو بحساب﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن﴾، یعنی ہر ایک لڑکے کو ہر ایک لڑکی کا دونا ملے گا۔ پس اگر زید کے مرتے وقت اس کے تینوں لڑکے (عمرو، بکر، خالد) اور چاروں لڑکیاں (ہندہ، بتول، آسیہ، آمنہ) زندہ رہی ہوں تو جائداد مذکورہ اسی سہام (حصوں ) پر تقسیم ہو کر دس سہام مریم کو اور چودہ چودہ عمرو و بکر و خالد کو اور سات سات سہام ہندہ، بتول، آسیہ، آمنہ کو ملے گا، پھر جو کچھ خالد کو ملا ہے، خالد کے وارثوں میں اس طرح تقسیم ہو گا کہ (بعد تقدیم ما تقدم علی الارث و رفع موانعہ) ربع، یعنی چوتھائی خاتون کو اور ثلث، یعنی تہائی مریم کو ملے گا اور باقی خالد کے بھائی بہنوں میں بحساب﴿لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْن﴾ تقسیم ہوگا، پس اگر خالد کے مرتے وقت اس کے دونوں بھائی اور چاروں بہنیں زندہ رہی ہوں تو خالد کا کل ترکہ چھیانوے سہام پر تقسیم ہو کر چوبیس سہام خاتون کو اور بتیس مریم کو اور دس دس سہام عمرو و بکر اور پانچ پانچ سہام ہندہ، بتول، آسیہ، آمنہ کو ملے گا۔
واضح ہو کہ تقسیم مذکورہ بالا اسی صورت سے تعلق رکھتی ہے کہ زید کی چاروں لڑکیاں زید و خالد کے مرتے وقت زندہ موجود رہی ہوں ، ورنہ یہ تقسیم قائم نہیں رہے گی، بلکہ جیسی صورت ہوگی، اس کے مطابق تقسیم ہوگی اور یہ بھی واضح رہے کہ خالد کے ذمہ جو قرض ہے، اس قرض کے خالد کے ترکہ سے ادا کرنے کے بعد جو بچ رہے، وہ خالد کے وارثوں میں بطریق مذکور بالا تقسیم ہوگا۔ و اللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ: محمد عبد اللّٰه (۷؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۳۱ھ)
کون سا کافر وراثت سے محروم ہوتا ہے؟
سوال: 1۔اگر ایک شریک (برادر عینی) اپنے شرکاء سے ایک ہی شہر میں بذریعہ مراسلہ رجسٹری شدہ یہ پوچھے کہ ’’میں مشترکہ جائداد میں سے اپنا حصہ بذریعہ تقسیم علیحدہ کرنا چاہتا ہوں اور اس میں جو حصص شرعیہ ہماری والدہ اور ہمشیرہ کے ہیں ، وہ بجنسہا آپ ان کے حوالے کر دیں گے یا حسبِ رواج زمیندارہ انھیں خرچ و گزارہ دیں گے؟ اس
|