حتی کہ اگر کوئی شخص مسجد بنا کر صاف طور سے بھی کہہ دے کہ میں نے یہ مسجد صرف فلاں محلہ والوں کے لیے بنائی ہے، نہ کہ دوسروں کے لیے اور اس میں وہی لوگ نماز پڑھیں نہ کہ دوسرے لوگ، تو یہ شرط اُس کی باطل ہے اور باوجود اس شرط کے بھی دوسرے لوگ اُس مسجد میں ویسا ہی نماز پڑھنے کا حق رکھتے ہیں ، جیسا کہ اُس محلہ والے۔ اس میں دونوں یکساں و برابر ہیں اور سبب وہی ہے، جو اوپر مذکور ہوا کہ جب کوئی جگہ مسجد بن جائے تو اُس میں عامہ مسلمین کو نماز خوانی و دیگر عبادات مذکورہ بالا کا یکساں و برابر حق حاصل ہوجاتا ہے اور اس میں کسی منع اور مزاحمت کا حق باقی نہیں رہتا۔
ہدایہ مع کفایہ (۲/ ۹۰۷) چھاپہ کلکتہ میں ہے: "لأن المسجد لا یکون لأحد فیہ حق المنع" اھ [ کیونکہ مسجد سے روکنے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے] کفایہ شرح ہدایہ(۲/ ۹۰۷) چھاپہ کلکتہ میں ہے: "لأن للعامۃ حق إقامۃ الصلاۃ في المسجد" [کیوں کہ عام لوگوں کو مسجد میں نماز قائم کرنے کا حق حاصل ہے] فتاویٰ عالمگیری (۲/ ۲۴۸) مطبوعہ مطبع طبی بندر ہو گلی میں ہے:
"في وقف الخصاف: لو بنی مسجداً لأھل محلۃ، وقال: جعلت ھذا المسجد لأھل ھذہ المحلۃ خاصۃ، کان لغیر أھل تلک المحلۃ أن یصلي فیہ، کذا في الذخیرۃ"
[اَحکام الوقف للخصاف میں ہے کہ اگر ایک محلے والوں کے لیے مسجد بنائے اور کہے: میں نے یہ مسجد صرف اس محلے والوں کے لیے بنائی ہے تو دوسرے محلے والے بھی اس میں نماز پڑھنے کا حق رکھتے ہیں ]
کتبہ: محمد عبد اللّٰه
مسجد کے متنازع صحن کا حکم:
سوال: ایک مسجد قدیم کہنہ بوسیدہ قناطی موقوعہ محلہ بلوا گھاٹ من محلات چنار گڑہ تھی، اندر حدودِ ارض مسجد مذکور پورب جانب ایک حجرہ خام بنوا کر شیخ اکبر عرف حاجی بنیس نے بود و باش اختیار کر کے ہر طرح سے آباد کیا اور اشخاص اہلِ اسلام سنت و جماعت نمازِ پنج گانہ ادا کرنے لگے۔ بعد کئی سال بوجہ بارش و طغیانی دریا حجرہ وغیرہ و دیوار احاطہ مسجد گر گیا، چونکہ حاجی موصوف آدمی صدسالہ عابد پابند صوم و صلاۃ بہمہ صفت متقی پرہیزگار تھے، کمر ہمت بستہ کارِ خیرِ دارین سمجھ کر از سرِ نو چھت و حجرہ و چہار دیواری وغیرہ برجائے قدیم اندر حدودِ ارض مسجد مسلمانوں سے چندہ تحصیل کر کے پختہ عرصہ چار برس کا تیار کرایا۔
چار برس تک کوئی شخص مزاحم نہ ہوا، چونکہ مسجد کی جانب دکھن کسی قدر زمین ایک شخص سنت جماعت کی ہے، جو بہت بڑے متدین اور سادات سے ہیں اور اپنی حکومت کے زمانے میں بہت ہی ذہانت سے کام کرتے رہے، یہاں تک کہ سود کی ڈگری بھی کرنا روا نہیں رکھتے تھے، انھوں نے اپنی بیٹی کا عقد ایک شخص خلافِ مذہب، جس کا بیان کافی کتاب الروضہ کے صفحہ (۱۶) میں مرقوم ہے، کر دیا، اس کی تاثیرِ صحبت سے اس قدر اثر ہوا کہ لوگوں کی
|